عمران خان کی اومنی بس ضمانتوں پر ماہرین کی آرا

جمعہ 12 مئی 2023
author image

فیصل کمال پاشا

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو نہ صرف القادر ٹرسٹ کرپشن مقدمے میں 17 مئی تک ضمانت مل گئی بلکہ اس کے ساتھ لاہور میں درج دہشت گردی کے مقدمات اور ظل شاہ قتل کے مقدمے میں بھی دس روز کی ضمانت مل گئی اس کے ساتھ ساتھ انہیں ‘اومنی بس‘ضمانتیں مل گئیں۔ اب عمران خان کو کسی بھی مقدمے میں 15 مئی تک گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔
اس فیصلے پر جب ’وی نیوز‘ نے ماہرین قانون کے ساتھ بات کی تو ان کی مختلف آرائیں سامنے آئیں۔

عمران خان کی ضمانتیں پاکستانی تاریخ کا انوکھا باب ہیں:امان اللہ کنرانی

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی نے عمران خان کو ملنے والی ضمانتوں پر حیرت کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کا ماننا ہے کہ ایک تو سپریم کورٹ نے عمران خان کی رہائی کا حکم نہیں دیا تھا بلکہ ان کو اسلام آباد پولیس کی تحویل میں دیا تھا۔ دوسرا عدالت کے احاطے سے عمران خان کی گرفتاری کے بارے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ایک حکم نامہ جاری کیا تھا جس کے مطابق ان کی گرفتاری قانونی تھی۔
امان اللہ کنرانی نے کہا کہ یہ حکمنامہ موجود ہے اور اس کو چیلنج نہیں کیا گیا اور سپریم کورٹ نے بھی اس فیصلے کے بارے میں بات نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا آرڈر یہ تھا کہ جہاں سے گرفتاری ہوئی وہاں ہی سے اس عمل کو دوبارہ شروع کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ وہ 37 سال سے وکالت کر رہے ہیں اور ان کا زیادہ کام فوجداری مقدمات سے متعلق ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک انوکھا باب رقم کیا گیا ہے۔ جو بندہ پہلے سے گرفتار ہو اسے ضمانت قبل از گرفتاری یا حفاظتی ضمانت نہیں بلکہ ضمانت بعد از گرفتاری کی ضرورت ہوتی ہے۔
القادر ٹرسٹ میں عمران خان کی ضمانت پر بات کرتے ہوئے امان اللہ کنرانی نے کہا کہ نیب مقدمات میں پہلے ہائی کورٹ ضمانت دیتی تھی لیکن اب یہ اختیار احتساب عدالت کو مل گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق عمران خان کو ضمانت کے لیے متعلقہ عدالتوں سے رجوع کرنا چاہیے تھا نہ کہ ہائی کورٹ سے اور ایسی صورت میں جب وہ پہلے سے گرفتار تھے۔ امان

عمران خان کو غیرقانونی فیور دی گئی ہے۔

اللہ کنرانی نے کہا کہ ان کی نظر میں عمران خان کو غیرقانونی فیور دی گئی ہے۔
عمران خان کو ضمانتیں بالکل قانون کے مطابق ملیں: اکرام چوہدری ایڈووکیٹ
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اکرام چوہدری نے ’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کو ملنے والا ریلیف بالکل قانون کے مطابق ہے اور اس میں کوئی غیر قانونی بات نہیں۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کو احاطہ عدالت سے گرفتار کرنا لاقانونیت تھی اور عدالت کے اندر جب ایک شخص آ جاتا ہے تو وہ عدالتی پناہ میں تصور کیا جاتا ہے۔
اکرام چوہدری نے کہا کہ 99 فیصد نیب مقدمات میں جب کوئی بندہ ضمانت کے لیے پہلی بار آتا ہے تو اس میں مقدمے کے میرٹس اور ڈی میرٹس پر بات نہیں کی جاتی اور ضمانت مل جاتی ہے جس کو بعد کنفرم یا منسوخ کیا جاتا ہے۔

مقدمات کی بھرمار ہو جائے تو عدالتیں اومنی بس آرڈر جاری کرتی ہیں

عمران خان کو اومنی بس ضمانتیں ملنے پر ردعمل دیتے ہوئے اکرام چوہدری نے کہا کہ جب کسی شخص کے خلاف مقدمات کی بھرمار ہو جائے تو عدالتیں اومنی بس آرڈر جاری کرتی ہیں۔ یہ روٹین کا آرڈر ہے اور حکومتی اتحاد جو اس کو فیورٹزم کا رنگ دینے کی کوشش کر رہا ہے وہ بالکل غلط ہے۔ نیب مقدمات میں عام آدمی کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔
راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل نے نام نہ لکھنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کے ایک مؤ کل پر دس کروڑ غبن کا الزام تھا۔ مقدمہ نیب میں درج تھا۔ مذکورہ وکیل نے اپنے مؤکل کی ضمانت قبل از گرفتاری کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا کیوں کے نیب کے پرانے قانون کے تحت نیب مقدمات میں ضمانت دینے کا اختیار ہائی کورٹ کے پاس تھا۔
انہوں نے بتایا کہ مقدمے کی سماعت کے بعد عدالت نے درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کر لیا جو کہ 48 دن کے بعد سنایا جانا مقرر ہوا۔ لیکن فیصلہ محفوظ ہونے کے بعد جب میرا مؤکل احاطہ عدالت سے باہر نکلا تو اسے نیب حکام نے نا صرف گرفتار کر لیا بلکہ جعلی دستاویزات کی بنیاد پر احتساب عدالت سے اس کا ریمانڈ بھی حاصل کر لیا۔
ریمانڈ مکمل ہونے کے بعد اسے اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا۔ 48 دن کے بعد گو کہ اسکی ضمانت کی درخواست مسترد ہو گئی لیکن ضمانت کا فیصلہ ہونے سے پہلے اس کو گرفتار کرنا غیرقانونی تھا۔

نیب والوں کو کوئی غلط فہمی ہو گئی ہو گی

انہوں نے بتایا کہ اس پر انہوں نے توہین عدالت کی درخواست دائر کی جس کی سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے کی۔ انہوں نے بتایا کہ عدالت نے توہین عدالت کی درخواست یہ کہہ کر مسترد کر دی کہ نیب والوں کو کوئی غلط فہمی ہو گئی ہو گی۔
اس کے بعد میں نے ضمانت بعد از گرفتاری کا مقدمہ دائر کیا تو اسلام آباد ہائی کورٹ نے دس کروڑ روپے نقد بطور زرضمانت رکھوانے کو کہا۔ میں نے کہا کہ میرا مؤ کل اتنی حیثیت نہیں رکھتا۔ اس پر عدالت نے 20 کروڑ کے مچلکے جمع کرانے کی ہدایت کر دی یعنی 20 کروڑ مالیت کی جائیداد، اس پر میں سپریم کورٹ گیا، وہاں سے ریمانڈ ہو کے مقدمہ واپس آیا پھر 10 لاکھ زرضمانت کے عوض ضمانت دی گئی لیکن اس سارے عمل میں میرا مؤکل کئی مہینے جیل میں گزار چکا تھا۔

ہتھکڑی لگا کر گرفتار کر لیا جاتا ہے

نیب مقدمات میں پیش ہونے والے ایک اور وکیل امجد اقبال قریشی نے ایک سوال کہ ’عام آدمی کی گرفتاری کس طرح سے عمل میں لائی جاتی ہے‘ کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ عام روٹین تو یہ ہے کہ جونہی نیب یا کسی اور عدالت میں کسی بھی ملزم کی ضمانت منسوخ یا خارج ہوتی ہے، پولیس اس کی کمر پر ہاتھ رکھ لیتی ہے۔ اس کے بعد وہ جونہی کمرہ عدالت سے باہر آتا ہے اسے ہتھکڑی لگا کر گرفتار کر لیا جاتا ہے۔
انہوں نے اپنے مقدمے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ نیب سے متعلق ایک مقدمے میں وہ ملزمان کی ضمانت کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئے تو عدالت نے کہا کہ نئے ترمیم شدہ قانون کے مطابق اب ضمانت کا اختیار احتساب عدالت کو مل گیا ہے اس لیے وہاں جائیں۔
انہوں نے کہا کہ نیب مقدمے میں عمران خان کو ہائی کورٹ سے ضمانت ملنا ان کے لیے باعث حیرت ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp