سپریم کورٹ بار کے صدر میاں رؤف عطا نے سپریم کورٹ کے باہر پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلوچستان کی موجودہ صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ صوبے میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال فوری توجہ کی متقاضی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:کوئٹہ دھماکا: امن و امان صوبائی معاملہ تاہم ضرورت پڑی وفاق مدد فراہم کرے گا، گورنر بلوچستان
انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز بلوچستان میں ہونے والا حملہ ایک انتہائی دردناک واقعہ تھا جس میں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا۔
انہوں نے سیاسی کارکنان کی جانوں کے نقصان پر افسوس کا اظہار کیا اور متاثرہ خاندانوں سے دلی تعزیت کی۔
میاں رؤف عطا نے کہا کہ بلوچستان میں بدامنی کے اثرات پورے معاشرے پر پڑ رہے ہیں، کاروبار شدید متاثر ہے، زمینی راستے تقریباً بند ہوچکے ہیں جبکہ فضائی سفر اتنا مہنگا ہو گیا ہے کہ ایک ٹکٹ 70 ہزار روپے میں فروخت ہورہا ہے۔

انہوں نے سول ایوی ایشن اتھارٹی کو اس صورتحال پر فوری توجہ دینے کا مطالبہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں کرپشن اور مس مینجمنٹ عروج پر ہے، جس کی وجہ سے عوام کی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔
تربت میں فورسز کے 5 اہلکاروں کی ہلاکت کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ بھی ہمارا ہی نقصان ہے۔
یہ بھی پڑھیں:وزیراعلیٰ بلوچستان کا مائنز اینڈ منرلز ایکٹ دوبارہ اسمبلی سے اتفاق رائے سے منظور کرانے کا اعلان
سپریم کورٹ بار کے صدر نے کہا کہ وزیر داخلہ بلوچستان میں کیمپ آفس قائم کریں اور براہِ راست عوام سے ملاقات کریں تاکہ عوامی مسائل بہتر انداز میں حل کیے جا سکیں۔
انہوں نے کہا کہ بدامنی کے باعث بلوچستان کا ہر بچہ نفسیاتی دباؤ کا شکار ہورہا ہے، ایسے میں تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا ہوگا اور امن و امان پر توجہ دینا ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے سیاسی رہنماؤں کو یہ سمجھانا ہوگا کہ مفاہمت کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔

میاں رؤف عطا نے کہا کہ ہم مطالبہ کریں گے کہ صوبے میں گڈ گورننس لائی جائے اور سنجیدہ و تجربہ کار لوگوں کو ذمہ داریاں سونپی جائیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ آئین پاکستان انصاف کی فراہمی دہلیز تک پہنچانے کا تقاضا کرتا ہے، اس حوالے سے چیف جسٹس سے بھی رابطہ کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انصاف کی عمارت کا دروازہ سب کے لیے کھلا ہونا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں:آئی ایم ایف مشن کی صدر سپریم کورٹ بار میاں رؤف عطا سے ملاقات
پنجاب کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے میاں رؤف عطا نے پنجاب سی سی ڈی کے انکاؤنٹرز کو ایکسٹرا جوڈیشل کلنگ قرار دیا اور کہا کہ یہ کارروائیاں خلافِ قانون ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب کی اعلیٰ عدلیہ کیسز کا ٹرائل سات سے پندرہ دن کے اندر مکمل کرے تاکہ لوگوں کو جلد انصاف مل سکے۔
سپریم کورٹ بار صدر کا پابندیوں پر ردعمل
صدر سپریم کورٹ بار میاں رؤف عطا نے سپریم کورٹ عمارت میں وکلا پر حالیہ پابندیوں کو مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے مرکزی دروازے کو کھولنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر کی عدالتوں میں لوگوں کو آزادانہ داخلے کی اجازت ہوتی ہے، لیکن پاکستان کی سپریم کورٹ میں پابندیاں لگائی جا رہی ہیں جو ایک نامناسب عمل ہے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا میں عدالتوں میں جانے والوں کو تحفظ اور اعتماد کا احساس دلایا جاتا ہے جبکہ یہاں اندر جاتے ہی تلاشی اور خوف دیا جاتا ہے، جو اچھی صورتحال نہیں ہے۔
انصاف کے دروازے سب کے لیے کھلے ہونے چاہئیں
میاں رؤف عطا نے زور دیا کہ انصاف کے دروازے سب کے لیے کھلے ہونے چاہئیں اور سپریم کورٹ میں لگائی جانے والی پابندیاں انصاف کے راستے میں رکاوٹ ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آئین انصاف کی فراہمی دہلیز تک پہنچانے کی ضمانت دیتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ فیسوں میں اضافے کے معاملے پر وہ اپنی تجاویز پہلے ہی دے چکے ہیں۔














