چین ان دنوں پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے، اس کی زبردست قوت کا مظاہرہ ہر کوئی دیکھ رہا ہے۔ بالخصوص گزشتہ روز منعقد ہونے والی تاریخ کی سب سے بڑی فوجی پریڈ، جس کی قیادت چینی صدر شی جن پنگ نے کی اور جو دوسری عالمی جنگ کی 80ویں سالگرہ کے موقع پر منعقد ہوئی۔
اس پریڈ نے نہ صرف چین کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت اور جغرافیائی سیاسی اثر و رسوخ کو ظاہر کیا بلکہ مغرب مخالف ممالک کے ساتھ اس کی قربت کو بھی نمایاں کیا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ چین کی قیادت میں دنیا میں ایک نیا اور مضبوط بلاک کھل کر سامنے آ گیا ہے۔
پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے چینی صدر شی جن پنگ نے جو باتیں کہیں، وہ دنیا بھر بالخصوص مغربی طاقتوں کے لیے ایک باوقار اور واضح پیغام تھا۔
چینی صدر شی جن پنگ کی اہم تقریر
چین کے صدر شی جن پنگ نے عظیم الشان فوجی پریڈ سے جو خطاب کیا، وہ بذات خود ایک خاصے کی چیز ہے، اب امریکا سمیت مغربی طاقتیں اس کے ایک ایک لفظ پر غور و فکر کر رہے ہیں۔
شی جن پنگ نے کہا کہ چینی قوم کی نشاۃ ثانیہ کو روکا نہیں جاسکتا۔اور نہ ہی ہم بدمعاشوں سے خوفزدہ ہوں گے۔ دنیا میں نئی صف بندی کی ضرورت ہے جو طاقت کے زور پر نہیں بلکہ برابری کی بنیاد پر قائم ہو۔انسانیت ایک بار پھر امن یا جنگ، مکالمہ یا محاذ آرائی، باہمی کامیابی یا صفر جمع کھیل کے دوراہے پر کھڑی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ دنیا میں امن اسی وقت قائم ہو سکتا ہے جب ممالک ایک دوسرے کو برابر سمجھیں اور باہمی تعاون کے ساتھ آگے بڑھیں۔
انہوں نے دنیا بھر کے ممالک پر زور دیا کہ وہ ان اسباب کو ختم کریں جو جنگوں کی بنیاد بنتے ہیں اور تاریخی سانحات کے اعادے کو روکیں۔
سابق چینی رہنما ماؤ زے تنگ کے طرز کے سوٹ میں ملبوس، شی جن پنگ نے تقریب کے آغاز میں تقریباً 2 درجن غیر مغربی ممالک کے رہنماؤں کو خوش آمدید کہا۔ انہیں انگریزی میں یہ کہتے ہوئے دکھایا گیا: ‘Nice to meet you’ اور ‘Welcome to China’۔
یہ بھی پڑھیے دنیا میں نئی صف بندی کی ضرورت، چینی قوم کی نشاۃ ثانیہ کو روکا نہیں جاسکتا، چینی صدر شی جن پنگ
چینی صدر شی جن پنگ نے کہا کہ جنگِ عظیم دوم چین کی عظیم نشاۃِ ثانیہ میں سنگِ میل ثابت ہوئی، جہاں چین نے جاپانی جارحیت پر قابو پا کر عالمی قوت کے طور پر ابھرنے کا سفر شروع کیا۔
انہوں نے امریکا کی ’بالادستی کی سیاست‘ اور ’ٹرمپ کی تجارتی جنگوں‘ پر بالواسطہ تنقید کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کو نئی عالمی صف بندی کی ضرورت ہے جو طاقت کے زور پر نہیں بلکہ برابری کی بنیاد پر قائم ہو۔
ماہرین کے مطابق چین میں منعقد ہونے والی تاریخ کی سب سے بڑی فوجی پریڈ کا انعقاد، اس کی بڑھتی ہوئی عسکری قوت اور جغرافیائی سیاسی اثر و رسوخ کا اظہار تھا۔ صدر شی جن پنگ چین کو امریکا کے بعد اب خود کو عالمی نظام کے نئے معمار کے طور پر پیش کر رہا ہے۔
China held its largest ever military parade in history. pic.twitter.com/XgcgSv4Siu
— Globe Eye News (@GlobeEyeNews) September 3, 2025
بیجنگ فوجی پریڈ میں شریک 26 عالمی رہنماؤں کی فہرست
پریڈ میں 26 ممالک کے سربراہان مملکت نے شرکت کی۔
ایشیا و ایشیا پیسیفک
روس – صدر ولادیمیر پوتن
شمالی کوریا – رہنما کم جونگ اُن
کمبوڈیا – بادشاہ نورودوم سیہامونی
ویتنام – صدر لوؤنگ کوانگ
لاوس – جنرل سیکرٹری اور صدر تھونگ لون سِسُولیّت
انڈونیشیا – صدر پرابوو سبینتو
ملائشیا – وزیر اعظم انور ابراہیم
مِیانمار – عبوری صدر یا فوجی سربراہ من آنگ ہلائنگ
مالدیپ – صدر محمد معیزو
نیپال – وزیر اعظم کے پی شرما اولی
پاکستان – وزیر اعظم شہباز شریف
منگولیا – صدر خُرلسخ اُکھنا
وسطی ایشیا
قازقستان – صدر قاسم-جومارٹ ٹوکیئف
کرغزستان – صدر صدیق جاپاروف
تاجکستان – صدر امام علی رحمان
ترکمانستان – صدر سردار برداموخامیدوف
ازبکستان – صدر شوکت مرزیئیوف
یہ بھی پڑھیے چینی فوج کی تاریخی پریڈ میں نئے اور اہم ہتھیاروں کی نمائش، یہ ہتھیار کن صلاحیتوں کے حامل ہیں؟
مشرق وسطی و قفقاز
ایران – صدر مسعود پزیشکیان
آذربائیجان – صدر الہام علییف
آرمینیا – وزیر اعظم نیکول پاشینیان
یورپ
بیلاروس – صدر الیگزینڈر لوکاشینکو
سربیا – صدر الیگزینڈر ووچِچ
سلوواکیہ – وزیر اعظم رابرٹ فیکو
افریقہ
رپبلک آف کانگو (برازاویل) – صدر دینس ساسو انگیسو
زمبابوے – صدر ایمرسن منانگاگوا
براعظم امریکا
کیوبا – صدر میگل ڈیاڑ-کانیل
اس فہرست سے واضح ہوتا ہے کہ پریڈ میں زیادہ تر رہنما ایشیا اور افریقہ سے تھے، جبکہ یورپ کی نمائندگی صرف 2 رہنماؤں تک محدود رہی۔ مغربی یورپی یا امریکی قیادت کی عدم موجودگی اس تقریب کے سیاسی پیغام کو مزید نمایاں کرتی ہے۔
Xi Jinping poses for photo along with Vladimir Putin, Kim Jong Un as leaders attend China’s military parade pic.twitter.com/MZBtSviSjB
— The Associated Press (@AP) September 3, 2025
جدید ہتھیار جو پوری دنیا کو دکھائے گئے
بیجنگ میں ہونے والی شاندار فوجی پریڈ میں چین نے اپنے جدید اور مہلک ہتھیاروں کی نمائش کی، جس کا مقصد دنیا کو اپنی بڑھتی ہوئی عسکری طاقت اور ٹیکنالوجی میں برتری کا پیغام دینا تھا۔
نقاب کشائی کیے گئے اہم ہتھیار
لیزر ہتھیار (LY-1): آٹھ پہیوں والے بکتر بند ٹرک پر نصب یہ ہتھیار دشمن کے الیکٹرانک نظام کو ناکارہ، پائلٹس کو اندھا اور آلات کو جلا سکتا ہے۔
نیوکلیئر بیلسٹک میزائل (ICBM, JL-3): یہ بین البراعظمی میزائل چین سے براعظم امریکا تک اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ایک سے زائد وار ہیڈز لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
’گوام کلر‘ ڈونگ فینگ 26-D: درمیانی فاصلے تک مار کرنے والا یہ میزائل بحرالکاہل میں امریکی اڈوں یا لڑاکا طیاروں کے گروپ کو نشانہ بنانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
ہائپر سونک ہتھیار: آواز کی رفتار سے پانچ گنا تیز رفتار والے ہائپر سونک گلائیڈرز (YJ-17) اور کروز میزائل (YJ-19) کو دفاعی ماہرین نے چین کی سب سے بڑی پیش رفت قرار دیا ہے۔
دیوہیکل انڈر واٹر ڈرون: آبدوز نما یہ ڈرون 18–20 میٹر کی گہرائی تک جا کر کمانڈ اینڈ کنٹرول، جاسوسی اور دشمن آبدوزوں پر حملوں کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں۔
خودکار اور روبوٹک ٹیکنالوجی: پریڈ میں ڈرون پلیٹ فارم، روبوٹک ڈاگ، اور ٹینکوں پر نصب ڈرون سسٹمز بھی دکھائے گئے۔
فضائی طاقت کا اظہار
پریڈ میں ففتھ جنریشن کے چینی جنگی طیاروں نے رن وے سے ٹیک آف کرنے اور ساحلی پٹی پر پرواز کرنے کا مظاہرہ کیا، جسے ماہرین چین کی طیارہ بردار جہازوں سے زمینی حملے کی نئی صلاحیت قرار دے رہے ہیں۔
ماہرین کی رائے
دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل امریکا کے براعظم تک اہداف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔اور چین ہائپر سونک ٹیکنالوجی میں دنیا کی قیادت کر رہا ہے۔
دنیا بھر کے دفاعی ماہرین اور پینٹاگون کے حکام اب اس پریڈ میں دکھائے گئے ہتھیاروں کا بغور جائزہ لے رہے ہیں تاکہ چین کی بڑھتی ہوئی عسکری صلاحیتوں کے اثرات کو سمجھا جا سکے۔
اسلحہ کی دوڑ اور عالمی توازن
اگرچہ چین نے ہائپر سونک میزائل اور خودکار ہتھیاروں میں برتری دکھائی ہے، لیکن جوہری ہتھیاروں کے معاملے میں وہ اب بھی امریکا اور روس سے پیچھے ہے۔ امریکا اور روس کے پاس ہزاروں جوہری وار ہیڈز موجود ہیں، جب کہ چین کے پاس سینکڑوں۔
مغرب مخالف محور
چین کے بڑھتے ہوئے ہمہ پہلو اثر و رسوخ سے متعلق برطانوی اخبار ’دی گارڈین‘ نے ایک خصوصی رپورٹ شائع کی جس میں ماہرین کے حوالے سے روس، چین، ایران اور شمالی کوریا کے بڑھتے ہوئے فوجی و سیاسی تعاون کو “axis of upheaval” قرار دیا گیا، جس کا مظاہرہ یوکرین اور مشرق وسطیٰ کے میدانوں میں بھی دیکھنے کو ملا ہے۔ اب بیجنگ نے اسی اتحاد کو ساری دنیا کے سامنے پیش کیا ہے، گویا کہ وہ مغرب کی قیادت میں بننے والے عالمی نظام کے متبادل کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔
روس چین قریبی تعلقات
روسی صدر ولادیمیر پوٹن پہلے ہی بیجنگ میں موجود ہیں۔ انہوں نے شی جن پنگ کو اپنا ’عزیز دوست‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ روس چین تعلقات آج تاریخی بلندی پر ہیں۔ اسی موقع پر روس نے چین کو اپنی گیس کی برآمدات میں سالانہ 16 فیصد اضافہ کرنے کا نیا معاہدہ بھی کیا، جو مغربی پابندیوں کے شکار ماسکو کے لیے بڑی کامیابی ہے۔
بھارت کی شمولیت
بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی بھی یوریشیائی سربراہ اجلاس میں شریک ہوئے، جسے چین بھارت تعلقات میں بہتری کی علامت سمجھا جا رہا ہے۔ یہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب امریکا نے روسی تیل کی خریداری پر بھارت پر 50 فیصد ٹیرف عائد کیا ہے۔
امریکا چین تقابل
چین کی اس شاندار پریڈ کو امریکا کی جون میں منعقدہ نسبتاً کمزور فوجی پریڈ کے ساتھ براہِ راست موازنہ کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بیجنگ نے تاریخ کی سب سے بڑی فوجی پریڈ منعقد کرکے یہ پیغام دیا ہے کہ اگر امریکا طاقت کا مظاہرہ کر سکتا ہے تو چین اسے کہیں بہتر انداز میں ’پاور شو‘کی صلاحیت رکھتا ہے۔
رہی بات دونوں طاقتوں کے مابین عسکری قوت کے تقابل کی، 2025 کی Global Firepower رپورٹ کے مطابق امریکا اور چین کے درمیان فوجی طاقت کا موازنہ کئی جہتوں سے کیا جا سکتا ہے:
امریکا بمقابلہ چین – فوجی قوت کا تقابل (2025)
مجموعی درجہ بندی (Global Power Index)
امریکا: گلوبل پاور سکور 0.0744 کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے۔
چین: گلوبل پاور سکور 0.0788 کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ امریکا اب بھی عالمی سطح پر سب سے زیادہ طاقتور فوج رکھتا ہے، لیکن چین اس کے بہت قریب آ چکا ہے۔
فوجی اخراجات اور وسائل
امریکا: دنیا کا سب سے بڑا دفاعی بجٹ (تقریباً 850 ارب ڈالر سالانہ) – جدید ہتھیاروں، خلائی پروگرامز، اور عالمی اڈوں پر سرمایہ کاری۔
چین: تقریباً 290–300 ارب ڈالر سالانہ دفاعی بجٹ – جس میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، خاص طور پر نیوی اور میزائل پروگرامز میں۔
امریکا بجٹ میں برتری رکھتا ہے، لیکن چین اپنی صنعتی صلاحیت اور مقامی پیداوار کی وجہ سے کم لاگت پر بڑی طاقت بنا رہا ہے۔
اہلکار (Manpower)
امریکا: تقریباً 14 لاکھ فعال فوجی + 8 لاکھ ریزرو۔
چین: دنیا کی سب سے بڑی فوج، تقریباً 20 لاکھ فعال اہلکار + 5 لاکھ ریزرو۔
اہلکاروں کی تعداد میں چین کو واضح سبقت حاصل ہے۔
فضائیہ (Air Power)
امریکا: دنیا کی سب سے بڑی اور تکنیکی طور پر جدید فضائیہ، 13,200 سے زیادہ طیارے (F-22، F-35 جیسے جدید اسٹیلتھ جنگی طیارے)۔
چین: تقریباً 3,600 طیارے، جن میں J-20 اسٹیلتھ فائٹر شامل ہے۔
معیار اور ٹیکنالوجی میں امریکا آگے ہے، لیکن چین مقدار اور مقامی تیار کردہ طیاروں کے ذریعے خلا کم کر رہا ہے۔
بحریہ (Naval Power)
امریکا: 11 ایئرکرافٹ کیریئرز، 68 آبدوزیں (بشمول ایٹمی آبدوزیں)۔
چین: دنیا کی سب سے بڑی بحریہ (جہازوں کی تعداد کے لحاظ سے) – 370+ جنگی جہاز، لیکن صرف 3 ایئرکرافٹ کیریئرز۔
چین تعداد میں آگے ہے، مگر امریکا کے ایئرکرافٹ کیریئر بیڑے اسے عالمی سمندری برتری دیتے ہیں۔
ایٹمی صلاحیت
امریکا: تقریباً 5,200 ایٹمی وار ہیڈز (زیادہ تر تعینات اور جدید ڈلیوری سسٹمز کے ساتھ)۔
چین: تقریباً 500–600 ایٹمی وار ہیڈز، مگر تیزی سے اضافہ کر رہا ہے۔
اس میدان میں امریکا کو زبردست برتری حاصل ہے، لیکن چین اپنی ایٹمی قوت کو دوگنا کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
Highlights of China’s Victory Parade in 1 min: pic.twitter.com/Kz6XiWZVxR
— Carl Zha (@CarlZha) September 3, 2025
اس تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ اگرچہ امریکا اب بھی فوجی ٹیکنالوجی، عالمی اڈوں، ایئرکرافٹ کیریئرز اور ایٹمی صلاحیت کی بنیاد پر دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ تاہم چین تیز رفتاری سے خلا کو کم کر رہا ہے، خاص طور پر بحریہ، میزائل سسٹمز اور روایتی فوجی اہلکاروں میں۔
تاریخی بیانیہ اور فلمیں
چین نے اس موقع پر دوسری جنگِ عظیم میں جاپان کے خلاف اپنی جدوجہد کو نمایاں کیا اور مغرب کے کردار کو کم کر کے پیش کیا۔ حالیہ برسوں میں اس موضوع پر بننے والی فلمیں جیسے “Dead to Rights” اور “Dongji Rescue” نے چین کے اس بیانیے کو مزید مضبوط کیا ہے۔
تائیوان پر اشارے
ماہرین کے مطابق یہ پریڈ دراصل تائیوان کے لیے بھی ایک پیغام ہے کہ چین اپنی فوجی طاقت کے ذریعے یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ ’مزاحمت بیکار ہے‘۔ امکان ہے کہ پریڈ میں چین کے جدید ترین “پانچویں نسل کے لڑاکا طیارے J-20” اور سپر سونک ڈرونز بھی دکھائے گئے، جو خطے میں اس کی بڑھتی ہوئی عسکری صلاحیت کا مظہر ہیں۔
واضح رہے کہ امسال جون میں ایک بیان کے ذریعے چین امریکا کو خبردار کرچکا ہے کہ وہ تائیوان کے مسئلے پر ’آگ سے کھیلنے‘ سے باز رہے۔
یہ ردِعمل اس وقت سامنے آیا جب امریکی وزیرِ دفاع پیٹ ہیگستھ نے سنگاپور میں ایک اعلیٰ سطحی سیکیورٹی سمٹ کے دوران چین کو خطے کے لیے ’خطرہ‘ قرار دیا۔
ہیگستھ نے شنگریلا ڈائیلاگ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یقیناً چین ’تیاری‘ کر رہا ہے تاکہ ایشیا میں طاقت کے توازن کو اپنی جانب جھکا سکے۔ انہوں نے بیجنگ پر الزام عائد کیا کہ اس نے تائیوان پر ممکنہ حملے کی مشق کی ہے۔
یہ بھی پڑھیے شنگھائی تعاون تنظیم کے تیانجن اجلاس کی غیر معمولی اہمیت، ڈالر کا متبادل لانا کیا آسان عمل ہے؟
یاد رہے کہ چین تائیوان کو اپنے ملک کا حصہ سمجھتا ہے اور اگر ضرورت پڑی تو طاقت کے ذریعے الحاق کرنے کا عزم ظاہر کر چکا ہے۔
چین کی وزارتِ خارجہ نے امریکا کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کو یہ غلط فہمی نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ تائیوان کا معاملہ چین کو قابو میں رکھنے کے لیے سودے بازی کا ہتھیار بنا سکتا ہے۔ اسے آگ سے نہیں کھیلنا چاہیے۔
چین نے امریکا پر الزام لگایا کہ وہ ایشیا پیسیفک کو ایک ’بارود کا ڈھیر‘ بنا رہا ہے اور خطے میں ہتھیار تعینات کر کے کشیدگی کو ہوا دے رہا ہے۔ وزارتِ خارجہ نے واشنگٹن کے خلاف باضابطہ احتجاج بھی درج کرایا۔
چینی وزارتِ خارجہ نے مزید کہا کہ ہیگستھ نے خطے کے ممالک کی امن و ترقی کی خواہش کو نظرانداز کیا اور ’سرد جنگ کی ذہنیت‘ کو فروغ دیا، جس کا مقصد نئے فوجی اتحاد بنانا اور چین کو بدنام کرنا ہے۔
چین نے امریکا کو ’خطے میں امن و استحکام کے لیے سب سے بڑا خطرہ‘ قرار دیا۔
چین کے وزیرِ دفاع ڈونگ جن اس سال شنگریلا ڈائیلاگ میں شریک نہیں ہوئے اور بیجنگ نے کم درجے کے وفد کو بھیجا۔
یہ 2019 کے بعد پہلی بار ہے کہ چین کے وزیرِ دفاع اس اجلاس میں موجود نہیں تھے۔
گزشتہ روز منعقد ہونے والی عظیم پریڈ کے تناظر میں ماہرین کا کہنا ہے کہ چین اپنی موجودہ سیاسی طاقت کو دوسری جنگِ عظیم میں جاپان کو شکست دینے کی روایت کے ساتھ جوڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخی بیانیہ اور فوجی طاقت کا مظاہرہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اقتصادی دباؤ اور امریکا کے ساتھ تجارتی جنگ کے تناظر میں شی جن پنگ کے لیے اس طرح کے مظاہرے اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک دونوں سطحوں پر اپنی پوزیشن مضبوط بنانے کے لیے ضروری ہیں۔