شبنم زیادتی کیس: فاروق بندیال کیسے بچ نکلا؟

ہفتہ 13 مئی 2023
author image

بلال غوری

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جب مولوی مشتاق حسین لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جب کہ جسٹس انوار الحق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تھے اور بھٹو کے خلاف قتل کے مقدمے کی کارروائی جاری تھی، تو لاہور میں ایک ایسی گھناؤنی واردات ہوئی جس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔

اداکارہ شبنم جو گلبرگ کے بنگلہ 9B میں رہتی تھیں، 12 اور 13 مئی کی درمیانی شب چند ’پڑھے لکھے‘ ڈاکو جن کا سرغنہ فاروق بندیال تھا، فلمی انداز میں شبنم کے گھر داخل ہوئے، ان کے شوہر روبن گھوش کو رسیوں سے باندھ دیا اور رات بھر نہ صرف لوٹ مار کرتے رہے بلکہ مبینہ طور پر اداکارہ شبنم کا گینگ ریپ بھی کیا؟

اس رات کیا ہوا؟ ڈاکوؤں میں کون کون شامل تھا؟ یہ بااثر لٹیرے سزائے موت سنائے جانے کے باوجود کیوں بچ نکلے؟ اور اس واردات کے مرکزی کردار فاروق بندیال کا موجودہ چیف جسٹس سپریم کورٹ عمر عطا بندیال سے کیا رشتہ ہے؟ آج ہم یہی تلخ حقائق بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔

زیادتی کیس کے فیصلے سے متعلق اس وقت کے ایک اخبار کا تراشا۔

اداکارہ شبنم جن کا اصل نام جھرنا باسک تھا، انہوں نے 1962ء میں فلم ’چندا‘ میں معاون اداکارہ کے طور پر کام کیا، جس کے بعد انہیں اس قدر پذیرائی ملی کہ وہ دیکھتے ہی دیکھتے فلمی دنیا کی سب سے بڑی ہیروئن بن گئیں۔

شبنم نے کم و بیش 170 فلموں میں کام کیا جن میں آس، انمول، آئینہ، دل لگی، آبرو اور زینت جیسی شاہکار فلمیں شامل ہیں۔ 70 اور 80 کی دہائی میں شبنم اور ندیم کی جوڑی بہت مقبول ہوا کرتی تھی۔

اداکارہ شبنم کے شوہر رابن گھوش بھی بہت بڑے موسیقار تھے۔اداکارہ شبنم اور رابن گھوش دونون بنگالی تھے مگر جب مشرقی پاکستان علیحدہ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا تو ان دونوں نے اپنی جنم بھومی کی طرف لوٹ جانے کے بجائے پاکستان میں رہنے کا فیصلہ کیا۔مگر محض 7 سال بعد ہی ایک ایسی واردات ہوئی جس نے ان دونوں کو پاکستان چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔

12 اور 13 مئی کی درمیانی شب رات کے وقت اداکارہ شبنم کے گھر دستک ہوئی، جب ان کے شوہر روبن گھوش نے دروازہ کھولا تو فاروق بندیال، وسیم یعقوب بٹ اور سردار خان کھچی اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ گھر میں داخل ہوگئے۔ یہ سب گورنمنٹ کالج لاہور کے پڑھے لکھے مگر بگڑے رئیس زادے تھے۔

فاروق بندیال کے ماموں فتح خان بندیال جو ایف ۔کے بندیال کے نام سے مشہور تھے، وہ  ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں خیبر پختونخوا کے چیف سیکریٹر ی رہے اور اب پنجاب کے چیف سیکریٹری تھے۔ سردار خان کھچی کا تعلق بھی میلسی کے زمیندار گھرانے سے تھا اور وہ کم وبیش 150 مربع زمین کے مالک تھے، اسی طرح وسیم یعقوب بٹ اور دیگر نوجوانوں کا تعلق بھی کھاتے پیتے گھرانوں سے تھا۔

اس واردات میں ملوث ملزم فوری طور پر گرفتار تو کر لیے گئے مگر چونکہ ملزموں کا تعلق نہایت بااثر خاندانوں سے تھا اس لیے اداکارہ شبنم کو یہ کیس واپس لینے کے لیے مجبور کیا جاتا رہا مگر پوری فلم انڈسٹری ان کی پشت پر کھڑی ہوگئی۔

فاروق بندیال نے عمران خان سے ملاقات کرکے پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کیا تو سوشل میڈیا پر سخت احتجاج کیا گیا۔

چونکہ فوجی عدالتیں قائم کی جا چکی تھیں اور زیادہ تر مقدمات کے فیصلے سول کورٹس کے بجائے ملٹری کورٹس میں ہو رہے تھے اس لیے عوامی دباؤ پر ملزموں کا ٹرائل کرنے کے لیے فوجی افسر لیفٹیننٹ کرنل خالد ادیب کی سربراہی میں ملٹری کورٹ تشکیل دیدی گئی۔

بالعموم فوجی عدالت میں حکومت کے تشکیل کردہ اسپیشل پراسیکیوٹر ہی  مقدمہ لڑا کرتے تھے مگر فلمی ستاروں کا خیال تھا کہ اس بار کسی قابل وکیل کی خدمات حاصل کی جائیں تاکہ ملزم قانون کی گرفت سے بچ نہ پائیں۔

اداکار ندیم اور محمد علی جو شبنم کو انصاف دلوانے کے لیے پیش پیش تھے ان سے مشاورت کے بعد شبنم اور رابن گھوش نے ایوب خان دور میں وفاقی وزیر قانون کا عہدہ  سنبھالنے والے ایس ایم ظفر کو وکیل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ شاید ایس ایم ظفر کے انتخاب کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ ملکہ پکھراج کے داماد ہیں، معروف گلوکارہ طاہرہ سید ان کی سالی ہیں اور اسی نسبت سے ان کے فلمی دنیا سے اچھے تعلقات رہے ہیں۔

ایس ایم ظفر اپنی کتاب ’میرے مشہور مقدمے‘ میں اس واقعہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’میں نے شبنم کی طرف دیکھا اس کی آنکھوں میں آنسو نمایاں تھے۔ میں نے شبنم سے مخاطب ہو کر کہا کہ یہ مقدمہ تو سرکاری معلوم ہوتا ہے۔ اس میں سرکاری وکیل ہی پیش ہو سکتا ہے میرا اتنا کہنا تھا کہ شبنم کی پلکوں پر تھمے ہوئے آنسو ٹپ ٹپ بہنے لگے۔

بیگم صاحبہ نے اسے کئی ٹشو پیپر لا کر دیے اور وہ بار بار آنسو پوچھتی رہیں۔ دوسرے دن محمد علی کا فون آیا کہ ’پوری فلم انڈسٹری کی خواہش ہے کہ شبنم کی مکمل طور پر حمایت کی جائے لہٰذا میری آپ سے درخواست ہے کہ اس مقدمہ کی ضرور پیروی کریں‘۔

ایس ایم ظفر اداکارہ شبنم کی وکالت کرنے پر رضامند ہو گئے اور حکومت نے بھی انہیں اس مقدمے میں اسپیشل پراسیکیوٹر تعینات کردیا۔ اس مقدمے میں ایس ایم ظفر کے معاون وکیل میاں محمد اجمل ایڈوکیٹ تھے جو بعد ازاں پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بنے۔

70 اور 80 کی دہائی میں شبنم اور ندیم کی جوڑی بہت مقبول ہوا کرتی تھی۔

دوسری طرف ملزموں نے بھی  بہت مشہور وکلا کی خدمات حاصل کر رکھی تھیں۔ ایک طرف ان ملزموں کے بااثر خاندان انہیں بچانے کی سرتوڑ کوشش کر رہے تھے تو دوسری طرف حکومت کو ان ملزموں کر قرار واقعی سزا دینے کے لیے شدید عوامی دباؤ کا سامنا تھا کیونکہ ان بگڑے رئیس زادوں کی طرف اس نوعیت کی یہ پہلی واردات نہ تھی بلکہ اس سے پہلے بھی اسے سے ملتی جلتی وارداتیں کر چکے تھے۔

ایس ایم ظفر اپنی کتاب ’میرے مشہور مقدمے‘ میں لکھتے ہیں ’دراصل اس مقدمے نے بڑی مخصوص ڈرامائی شکل اختیار کرلی تھی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ انہی ملزموں نے اس سے پہلے زمرد ایکٹریس کے گھر پر ڈاکا ڈالا تھا اور وہاں بھی ان کا طریقہ واردات اسی قسم کا تھا کہ گھر میں داخل ہو کر خوب سکون و اطمینان سے گھر کا قیمتی سامان سمیٹ لیا۔ افراد خانہ پرحکم چلایا اور یہ افواہ بھی عام تھی کہ نوجوان ڈاکوؤں نے انسانی حدود کی بھی پاسداری نہ کی‘۔

’دوسری وجہ یہ تھی کہ زمرد اور شبنم کے گھر پر ڈاکا ڈالنے والے یہ نوجوان ڈاکو شہر کے کھاتے پیتے بڑے بڑے امیر گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے جو بہت بااثر تھے اور یہ کہ یہ نوجوان ڈاکو گورنمنٹ کالج لاہور کے فارغ التحصیل تھے۔ میرے ایک کلاس فیلو اور قریبی ساتھی کے ایک عزیز بھی اس مقدمہ میں ملزم تھے‘۔

میلسی سے تعلق رکھنے والے سردار خان کھچی جو سزا سے بچ نکلے، وہ دو بار پنجاب اسمبلی کے رُکن رہے اور اب وفات پا چکے ہیں۔

ایس ایم ظفر نے  اشارے کنائے میں جن ’انسانی حدود‘ کی بات کی ہے اس سے مراد دراصل یہ ہے کہ ان بگڑے رئیس زادوں نے اداکارہ زمرد کو بھی اسی طرح اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا اور یہ ان کا محبوب مشغلہ تھا۔

اداکارہ شبنم چونکہ سپر اسٹار تھیں، ان کے شوہر روبن گھوش بھی بہت بڑے فنکار تھے اور پھر دونوں بنگالی تھے، ابھی چند برس قبل ہی مشرقی پاکستان علیحدہ ہوا تھا، سقوط ڈھاکہ کے دوران بنگالیوں کے ساتھ  ہوئے مظالم کی کہانیاں زبان زدِعام تھیں اس لیے یہ واردات انٹرنیشنل نیوز بن گئی اور ملزموں کو قانون کے کٹہرے میں لانا حکومت کی مجبور بن گئی۔

معروف صحافی خاور نعیم ہاشمی جو ان دنوں ضیا الحق پر تنقید کی پاداش میں لاہور کی سینٹرل جیل میں قید تھے، وہ جیل میں فاروق بندیال، وسیم یعقوب بٹ اور ان کے دیگر ساتھیوں کے اثر و رسوخ سے متعلق اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ وہاں 6 نئے قیدیوں کا اضافہ ہوا تھا جنہیں ’فاتحین شبنم‘کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔ بہت دھاک تھی ان لڑکوں کی جیل میں۔ لگتا تھا سپرنٹنڈنٹ سمیت جیل کا سارا عملہ ان کے ماتحت ہے۔ ان دنوں لاہور کا سب سے بڑا بدمعاش ’شاہیا پہلوان‘ بھی اسی جیل میں تھا، اسے جیل کے اندرونی گیٹ کے قریب بوہڑ کے درخت تلے بیٹھنے کی اجازت بھی ان لڑکوں سے لینا پڑتی۔ وہ لڑکے تو جیلر کی کرسی پر بیٹھ کر عملے کو احکامات صادر کیا کرتے تھے۔

شبنم زیادتی کیس سے متعلق ڈان اخبار کا تراشا۔

سورج ڈھلنے پر کوٹھڑیوں میں بند کیے جانے سے پہلے آدھا گھنٹہ واک کی اجازت ملی تو ایک دن ’فاتحین شبنم‘ سے ملاقات ہو گئی۔ میں نے ان سے پوچھا، تم نے ایک نامور ایکٹرس سے اجتماعی زیادتی کیوں کی؟ یہ جرم شبنم کے شوہر رابن گھوش اور ان کے کم سن بیٹے رونی کو زنجیروں سے باندھ کر ان کے سامنے کیوں کیا؟ اور یہی و اردات چند دن پہلے اداکارہ زمرد کے گھر کیوں کی گئی؟

فاروق بندیال اور اس کے ساتھیوں کا دعویٰ تھا کہ وہ سب شبنم کے گھر ایک عرصہ سے جا رہے تھے۔ ہر شام وہاں جوا ہوتا جو اکثر فجر تک جاری رہتا۔ وہاں زمرد ہی نہیں کئی اداکارائیں اور تاش کی شوقین ایسی خواتین دیکھیں جن میں کئی بڑے گریڈ کے بیوروکریٹس کی بیویاں ہوتیں۔ ہمیں وہاں لوٹا گیا، وہاں ایسا سسٹم تھا کہ وہ جسے چاہیں جتوا دیں۔ جسے چاہیں قلاش کر دیں۔ ہم بھی اس گیم کے کھلاڑی ہیں جب ہمیں پتا چلا کہ فکسنگ ہوتی ہے، تو ہم نے انتقام میں یہ دونوں وارداتیں کیں۔

اس دور میں فاروق بندیال اور اس کے ساتھی ملزم مزے لیکر نہ صرف ان اداکاراؤں کے جسمانی خدوخال اور پیچ و خم کا احوال بتایا کرتے بلکہ نہایت ڈھٹائی سے جوئے والی کہانی کو بطور جواز پیش کیا جاتا۔

اداکارہ شبنم خود اعتراف کرتی ہیں کہ ان کے گھر آئے روز پارٹیاں ہوتی تھیں اور کچھ بعید نہیں کہ وہاں جوا بھی ہوتا ہو مگر فاروق بندیال، سردار خان کھچی اور وسیم یعقوب بٹ نے ساتھیوں سے ملکر جو گھناؤنی واردات کی اس کی کوئی  Justificationنہیں دی جا سکتی۔

فاروق بندیال، چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کے فرسٹ کزن ہیں۔

اداکارہ شبنم کاکم سن بیٹا رونی جو تب محض نو سال کا تھا۔وہ اس واقعہ سے نفسیاتی طور پر شدید متاثر ہوا اور شبنم نے اسے فوراً بیرون ملک بھجوا دیا۔

فوجی عدالت میں سماعت شروع ہوئی تو اداکارہ شبنم کو بیان ریکارڈ کرنے کے لیے بلایا گیا۔ شبنم فیروزی رنگ کی پھولدار ساڑھی میں ملبوس اور سفید شال اوڑھے بہت وقار اور تمکنت سے چلتے ہوئے کمرہ عدالت میں داخل ہوئیں۔ ملزموں کے چہرے مرجھائے ہوئے تھے۔ شاید انہیں توقع نہیں تھی کہ شبنم تمام تر دباؤ کے باوجود ان کے خلاف گواہی دینے کے لیے آئیں گی۔

شبنم نے واقعہ کی روداد بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس کے گھر میں داخل ہونے والے ملزموں کا سرغنہ فاروق بندیال تھا۔ تفصیل بیان کرتے ہوئے شبنم بار بار اپنے آنسو صاف کر رہی تھیں۔ شبنم سے پوچھا گیا، کیا آپ عدالت میں موجود ان ملزموں کو شناخت کر سکتی ہیں؟ شبنم کی ہمت جواب دے گئی اور  وہ سسکیاں لیکر رونے لگیں تو عدالت کی سربراہی کرنے والے لیفٹیننٹ کرنل خالد ادیب نے سختی سے کہا، میڈم اپنے آپ کو سنبھالیں، یہ عدالت ہے، یہاں آپ کو قانون کے مطابق شہادت دینی ہے۔

ایس ایم ظفر اپنی کتاب میں یہ واقعات محتاط انداز میں بیان کرتے ہوئے گینگ ریپ والی بات چھپا گئے۔

عدالت کے ان ریمارکس پر شبنم نے اپنی ہمت مجتمع کی اور باآواز بلند کہا، میں نے ان سب کو پہچان لیا ہے، میں انہیں کیوں نہیں پہچانوں گی، انہوں نے میرا سب کچھ لوٹ لیا ہے، میرا سکون و اطمینان تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔

فوجی عدالت نے سماعت مکمل کرنے کے بعد پانچ ملزموں کو سزائے موت سنا دی۔ ایک ملزم کو دس سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ جب کہ ایک ملزم کو رہا کر دیا گیا۔ سزا سنائے جانے کے بعد ایک بار پھر اداکارہ شبنم پر دباؤ ڈال کر معافی دلوانے کی کوششیں شروع ہو گئیں اور اداکارہ شبنم اپنی جان بچانے کے لیے ان بااثر ملزموں کو معاف کرنے پر رضامند ہوگئیں۔

پاکستان کی تاریخ میں ایک اور انوکھا واقعہ یہ پیش آیا کہ وکیل استغاثہ ایس ایم ظفر نے ملزموں کی طرف داری کرتے ہوئے جنرل ضیا الحق کو خط لکھ کر اپیل کی کہ ’پڑھے لکھے‘ مجرموں کو رحم کا مستحق سمجھتے ہوئے ان کی سزا کم کر دی جائے۔

ایس ایم ظفر نے 26 اکتوبر 1979ء  کو جنرل ضیاالحق کے نام لکھے گئے خط میں موقف اختیار کیا کہ میں نے دوران سماعت ملزموں کا مشاہدہ کیا ہے اور ان اسباب پر بھی غور کیا ہے جن کے تحت یہ جرم سرزد ہوا ہے۔ یہ نوجوان لڑکے گزشتہ حکومت کے مروجہ شتر بے مہار طریقہ کار کے تحت خطا کر بیٹھے۔ معاشرے میں اصلاحی اقدامات کا فقدان تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان جرائم کے ارتکاب کی ذمہ داری من حیث المجموع  معاشرے  اور نظام پر عائد ہوتی ہے۔ لہٰذا میں یہ لکھنے پر مجبور ہوں کہ آپ اس معاملے میں توازن قائم کریں۔ جہاں قانون میں موت کی سزا ہے وہاں آپ اپنا استحقاق استعمال کرتے ہوئے بردباری کے تحت مجرموں کی سزا، عمر قید میں بدل دیں۔یہ عمل اسلام کے احسان کے فلسفہ کے عین مطابق ہوگا۔

اداکارہ شبنم اپنے شوہر رابن گھوش کی وفات کے بعد چند برس قبل تب پاکستان آئیں جب انہیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دینے کے لیے مدعو کیا گیا۔

ایک وکیل جو اپنے موکل سے فیس وصول کرتا ہے، اس کی طرف سے فریق مخالف کی وکالت پیشہ ورانہ بددیانتی کہلاتی ہے یا نہیں، اس حوالے سے تو قانونی ماہرین ہی رائے دے سکتے ہیں تاہم ایس ایم ظفر بھیانک جرم کے مرتکب افراد کے لیے رحم کی اپیل کرتے وقت یہ بھول گئے کہ اسلام مجرموں کے لیے احسان نہیں بلکہ انصاف اور عدل کا تقاضا کرتا ہے۔

بہرحال جنرل ضیا الحق جنہوں نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت سے متعلق رحم کی اپیل بیک جنبش قلم یہ کہہ کر مسترد کر دی تھی کہ اسلام مساوات کا قائل ہے اور وہ نظام عدل کی راہ میں حائل نہیں ہوں گے، انہوں نے فاروق بندیال اور ان کے ساتھیوں کی سزائیں عمر قید میں تبدیل کر دیں اور پھر کچھ عرصہ جیل میں رہنے کے بعد یہ لوگ رہا ہوگئے۔

رہا ہونے کے بعد ایک اور پراپیگنڈا یہ کیا گیا کہ انہیں گینگ ریپ کے جرم میں سزا نہیں ہوئی بلکہ ڈکیتی کے الزام میں مجرم قرار دیا گیا مگر حقیقت یہ ہے کہ نظام عدل اور نظام حکومت نے ملکر ان بااثر مجرموں کی پردہ پوشی کرنے کی کوشش کی ورنہ پاکستان پینل کوڈ میں ڈکیتی کی زیادہ سے زیادہ سزاعمر قید ہے، اگر ان لوگوں نے محض لوٹ مار کی ہوتی تو انہیں ہرگز سزائے موت نہ ہوتی۔

اگرچہ ایس ایم ظفر اپنی کتاب میں یہ واقعات محتاط انداز میں بیان کرتے ہوئے گینگ ریپ والی بات چھپا گئے مگر ایک پیراگراف سے یہ تاثر ملتا ہے کہ فاروق بندیال اور ان کے ساتھیوں کا اصل جرم اجتماعی زیادتی ہی تھا۔

ایس ایم ظفر اپنی کتاب ’میرے مشہور مقدمے‘ میں لکھتے ہیں ’زنابالجبر کے مقدمات کی تحقیق سے یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ مستغیثہ ذہنی طور سے یہ سمجھتی ہے کہ جو کچھ ہوگیا ہے سو ہوگیا ہے، اس اس کی تلافی مجرم کو سزا دلانے سے تو نہ ہو سکے گی، البتہ اس سے مزید سبکی ضرور پیدا ہوگی اور واقعات کا ذکر کرکے جو ذہنی اذیت اور کوفت پہنچے گی وہ الگ اور مقدمہ کی شہرت سے بدنامی میں جو اضافہ ہوگا وہ الگ سوہان روح ثابت ہوگا، چنانچہ اکثر خواتین یہی بات سوچ کر سرے سے مقدمہ درج ہی نہیں کرواتیں‘۔

یہ بات ایس ایم ظفر نے اداکارہ شبنم کے فوجی عدالت میں بیان ریکارڈ کروانے کے تناظر میں لکھی ہے جس سے اس بات کی واضح طور پر تصدیق ہوتی ہے کہ شبنم کی ہچکچاہٹ کی وجہ بھی یہی تھی کہ وہ زنا باالجبر کے صدمے سے گزریں۔ یہ باتیں بھی زیر گردش رہیں کہ جب ملزم رہا ہوگئے اور شبنم کی زندگی برباد ہوگئی تو انہوں نے بنگلہ دیش جانے کی کوشش کی جہاں ان کے والدین مقیم تھے مگر ضیا الحق سرکار نے انہیں یہ سوچ کر جانے کی اجازت نہ دی کہ اگر وہاں جا کر شبنم نے اپنی خاموشی توڑ دی تو ملک کی بدنامی ہوگی۔

فاروق بندیال کے ماموں فتح خان بندیال اب وفاقی سیکریٹری داخلہ بن چکے تھے اور شبنم کئی برس وزارت داخلہ سے این او سی لینے کے لیے ماری ماری پھرتی رہیں۔ آخر کار انہوں نے درخواست دی کہ ان کے والد شدید بیمار ہیں اور وہ ان کی عیادت کے لیے جانا چاہتی ہیں، تب کہیں جا کر انہیں بنگلہ دیش جانے کی اجازت ملی، وہ بنگلہ دیش گئیں اور پھر دہائیوں لوٹ کر نہ آئیں۔

ضیا الحق سرکار نے شبنم کو بنگلہ دیش جانے کی اجازت نہ دی کہ اگر وہاں جا کر شبنم نے اپنی خاموشی توڑ دی تو ملک کی بدنامی ہوگی۔

اداکارہ شبنم اپنے شوہر رابن گھوش کی وفات کے بعد چند برس قبل تب پاکستان آئیں جب انہیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دینے کے لیے مدعو کیا گیا۔اس واقعہ میں ملوث بگڑے رئیس زادوں کی جوانیاں بھی اب ڈھل چکی ہیں، میلسی سے تعلق رکھنے والے سردار خان کھچی جو سزا سے بچ نکلے، وہ دو بار پنجاب اسمبلی کے رُکن رہے اور اب وفات پا چکے ہیں۔

فاروق بندیال نے عمران خان سے ملاقات کرکے پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کیا تو سوشل میڈیا پر سخت احتجاج کیا گیا، جس کے بعد انہیں پی ٹی آئی سے نکانے کا فیصلہ کرنا پڑا۔

گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے وسیم یعقوب بٹ اب  اے ایم ایچ میٹل انڈسٹریز کے نام سے کاروبار کرتے ہیں۔

اب آتے ہیں اس آخری سوال کی طرف کہ شبنم زیادتی کیس کے مرکزی کردار فاروق بندیال کا موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے کیا تعلق ہے؟ فاروق بندیال جسٹس عمر عطا بندیال کے فرسٹ کزن ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال کے والد ایف۔کے بندیال جو بہت بااختیار اور طاقتور بیوروکریٹ تھے، فاروق بندیال ان کے بھانجے ہیں اور مبینہ طور پر ان کے ماموں نے ہی انہیں بچانے اور رہا کروانے میں اہم کردار اداکیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp