مودی حکومت نے پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے تعلق رکھنے والی مذہبی اقلیتوں کے لیے ایک اہم فیصلہ کرتے ہوئے انہیں بھارت میں رہنے کی مشروط اجازت دے دی تاہم اس پالیسی سے مسلمانوں کو خارج کردیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کیجانب سے بنگلہ دیشیوں اور روہنگیا مسلمانوں کی ملک بدری کا سلسلہ جاری
ڈی ڈبلیو کے مطابق اس فیصلے کے تحت ہندو، سکھ، بدھ، جین، پارسی اور مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد جو 31 دسمبر 2024 تک بھارت میں داخل ہو چکے تھے اب درست سفری دستاویزات کے بغیر بھی بھارت میں رہائش اختیار کر سکیں گے۔
بھارت کی وزارت داخلہ نے منگل کی شب اس فیصلے کا باقاعدہ نوٹیفیکیشن جاری کیا جسے حکمراں جماعت بی جے پی کا سیاسی اقدام تو قرار دیا جا رہا ہے تاہم اسے ان متاثرہ اقلیتی برادریوں کے لیے ایک بڑی رعایت اور ریلیف بھی سمجھا جا رہا ہے۔
کون سے افراد اس رعایت کے مستحق ہیں؟
نوٹیفیکیشن کے مطابق وہ افراد اس قانون سے استفادہ کرسکیں گے جو پاکستان، بنگلہ دیش یا افغانستان سے تعلق رکھتے ہیں اور ہندو، سکھ، بودھ، جین، پارسی یا مسیحی مذہب کے پیروکار ہیں اور کسی وجہ سے اپنا ملک چھوڑ کر بھارت آئے ہیں اور 31 دسمبر 2024 تک بھارت میں داخل ہو چکے تھے۔
ایسے افراد کو اب امیگریشن قوانین سے استثنیٰ حاصل ہو گا چاہے ان کے پاس پاسپورٹ یا ویزا ہو یا نہ ہو یا ان کی سفری دستاویزات کی مدت ختم ہو چکی ہو۔
یہ فیصلہ اہم کیوں ہے؟
یہ اقدام حال ہی میں نافذ کیے گئے امیگریشن اور فارنرز ایکٹ 2025 کے تحت کیا گیا ہے جس سے خاص طور پر پاکستان سے بھارت جانے والی ہندو اقلیت کو بھی ریلیف ملے گا۔ یہ وہ افراد ہیں جو سنہ 2014 کے بعد بھارت پہنچے لیکن قانونی حیثیت کے بارے میں غیر یقینی کا شکار تھے۔
یاد رہے کہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے تحت پہلے ہی یکم جنوری 2015 سے قبل بھارت آنے والے افراد کو شہریت دینے کا راستہ کھولا گیا تھا۔ اب یہ نئی رعایت 2024 تک بھارت آنے والوں پر بھی لاگو ہو گی بشرطیکہ وہ درج اقلیتوں سے تعلق رکھتے ہوں۔
بی جے پی کا مؤقف اور سیاسی تناظر
بی جے پی کا کہنا ہے کہ یہ اقدام ظاہر کرتا ہے کہ حکومت مظلوم اقلیتوں کو قانونی تحفظ اور انسانی بنیادوں پر پناہ دینے کے لیے پرعزم ہے۔
مزید پڑھیے: سرحدی تشدد ختم کرنے کی ذمہ داری بھارت پر ہے، بنگلہ دیش
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جبس ی اے اے پر اپوزیشن کی جانب سے شدید تنقید کی جا رہی ہے اور مغربی بنگال میں آئندہ سال انتخابات ہونے والے ہیں۔ اس تناظر میں بی جے پی نے یہ اقدام کر کے اپوزیشن کا بڑا بیانیہ کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔
سی اے اے: ایک متنازع قانون
دسمبر 2019 میں بھارتی پارلیمان سے منظور شدہ شہریت ترمیمی قانون کو مودی حکومت نے 5 سال بعد مارچ 2024 میں نافذ کیا۔ اس قانون کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے ہندو، سکھ، جین، بودھ، پارسی اور مسیحی مذہب کے افراد کو شہریت دی جا سکتی ہے بشرطیکہ وہ سال 2015 سے پہلے بھارت آ چکے ہوں۔ تاہم مسلمانوں کو اس قانون سے مکمل طور پر خارج کر دیا گیا ہے۔
یہی بات اس قانون کو شدید تنقید اور احتجاج کا نشانہ بناتی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ قانون بھارت کے سیکولر آئین کے خلاف ہے اور مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتا ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں بھی اس قانون پر تحفظات کا اظہار کر چکی ہیں۔
مزید پڑھیں: پاکستان، بنگلہ دیش ویزا فری معاہدہ، بھارت کو پریشانی کیوں لاحق ہوئی؟
مودی حکومت ان الزامات کو رد کرتے ہوئے کہتی ہے کہ قانون کا مقصد صرف ان اقلیتوں کو تحفظ دینا ہے جو مسلم اکثریتی ممالک میں مبینہ طور پر مشکلات کا شکار ہیں۔
مخالفت اور احتجاج
سی اے اے کے نفاذ کے بعد بھارت بھر میں شدید مظاہرے ہوئے جنہیں حکومت نے طاقت کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی۔ اس حوالے سے سینکڑوں مظاہرین کو گرفتار کیا گیا جن میں سے کئی آج بھی قید میں ہیں۔