پشاور میں عمران خان کرکٹ اسٹیڈیم میں میچز کے انعقادکا انتظار آخر کب ختم ہوگا؟ شائقین کرکٹ نے حکومت سے بڑا مطالبہ کردیا pic.twitter.com/UQPeRwp5nk
— WE News (@WENewsPk) September 5, 2025
پشاور کے عمران خان کرکٹ اسٹیڈیم میں مکمل خاموشی ہے۔ نہ کہیں مزدور دکھائی دے رہے ہیں، نہ آواز اور نہ ہی کسی قسم کا کوئی تعمیراتی کام جاری ہے۔
ارباب نیاز کرکٹ اسٹیڈیم، جس کا نام تبدیل کرکے عمران خان کرکٹ اسٹیڈیم رکھا گیا ہے، پر تعمیراتی کام سال 2018 میں شروع ہوا تھا لیکن اب تک مکمل نہیں ہو سکا۔
صوبے کے واحد بین الاقوامی معیار کے اسٹیڈیم پر کام مکمل نہ ہونے کے باعث خیبر پختونخوا کے شائقین کرکٹ ہوم گراؤنڈ میں میچز دیکھنے سے محروم ہیں اور پشاور میں کرکٹ کی بحالی کے منتظر ہیں۔
پشاور میں میچز بند کیوں ہوئے؟
پشاور کے ارباب نیاز کرکٹ اسٹیڈیم (موجودہ عمران خان کرکٹ اسٹیڈیم) میں ماضی میں بین الاقوامی میچز کھیلے جاتے تھے۔ آخری ون ڈے میچ روایتی حریف پاکستان اور بھارت کے درمیان کھیلا گیا تھا، جو پاکستان نے جیتا تھا۔
مزید پڑھیں: پشاور کا کرکٹ اسٹیڈیم، جن کے نام سے منسوب ہے وہ ارباب نیاز کون تھے؟
اس کے بعد میچز کا انعقاد رک گیا کیونکہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے اسٹیڈیم کی سہولیات پر اعتراضات اٹھائے تھے، جس کی بنیاد پر میچز پر پابندی عائد کر دی گئی۔
2000 کے بعد صوبے میں خراب سیکیورٹی حالات کے باعث اسٹیڈیم پر مزید توجہ نہیں دی گئی۔ سال 2018 میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے اسٹیڈیم کی تعمیر نو کا آغاز کیا اور ڈیڑھ ارب روپے کی لاگت سے 2 سال میں مکمل کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
تاہم 8 سال گزرنے کے باوجود تعمیراتی کام تاحال مکمل نہیں ہوا جبکہ لاگت بڑھ کر 2 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔
اسٹیڈیم پر کتنا کام باقی ہے؟
محکمہ کھیل خیبر پختونخوا کے مطابق اسٹیڈیم پر تعمیراتی کام جاری ہے اور آخری مراحل میں داخل ہوچکا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل کھیل خیبر پختونخوا تشفین حیدر نے وی نیوز کو بتایا کہ حکومت کی کوشش ہے کہ جلد از جلد پشاور میں کرکٹ میچز بحال کیے جائیں تاکہ شائقین کا انتظار ختم ہو۔
مزید پڑھیں: ارباب نیاز کرکٹ اسٹیڈیم کا نام عمران خان نیازی اسٹیڈیم رکھنے کا فیصلہ
ان کا کہنا تھا کہ اسٹیڈیم میچز کے انعقاد کے لیے تیار ہے، پی ایس ایل کے سی ای او نے بھی خود آکر اسٹیڈیم کا معائنہ کیا ہے۔ ان کے مطابق صرف لائننگ کا کام باقی ہے، جس کا سامان پہنچ چکا ہے اور جلد مکمل کر لیا جائے گا۔ تاہم، انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ کام کتنے عرصے میں مکمل ہوگا۔
تشفيں حیدر کے مطابق حکومت کا پی سی بی اور پی ایس ایل حکام سے رابطہ ہے اور کوشش کی جا رہی ہے کہ یہاں میچز منعقد ہوں۔ انہوں نے کہا کہ 19 سال بعد پہلی بار پاکستان کے اسٹار کھلاڑی پشاور میں نمائشی میچ کھیل چکے ہیں، جس کا مقصد صوبے میں کرکٹ کی بحالی کی راہ ہموار کرنا تھا۔
عمران خان اسٹیڈیم میں میچز کا انعقاد کب ممکن ہوگا؟
ڈی جی کھیل کے مطابق صوبے کا واحد بین الاقوامی معیار کا کرکٹ اسٹیڈیم تیار ہے، جہاں کھلاڑیوں کے لیے رہائش کا ہاسٹل بھی موجود ہے۔ ان کے مطابق گراونڈ مکمل طور پر تیار ہے، البتہ ڈے نائٹ میچز کے لیے لائننگ کا کام باقی ہے جو جلد مکمل ہو جائے گا۔
پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے سی ای او سلمان نصیر بھی حالیہ نمائشی میچ کے دوران عمران خان اسٹیڈیم میں موجود تھے۔ انھوں نے میڈیا کو بتایا کہ پشاور میں پی ایس ایل میچز کرانے کے لیے حکومت سے بات کریں گے۔
مزید پڑھیں: بڑی پیشرفت، پشاور کے ارباب نیاز اسٹیڈیم میں 20 سال بعد میچ کروانے کی تیاریاں
ان کے مطابق اسٹیڈیم کی سہولیات کا جائزہ لیا گیا ہے اور پُرجوش شائقین کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہاں میچز ضرور ہونے چاہییں۔ ان کا کہنا تھا کہ کوشش ہوگی کہ آئندہ پی ایس ایل میچز پشاور میں بھی ہوں تاکہ شائقین اپنے ہوم گراؤنڈ میں براہِ راست میچز دیکھ سکیں۔
پشاور کے شائقین کیا کہتے ہیں؟
پشاور کے شائقین کرکٹ کی بحالی کے شدت سے منتظر ہیں۔ گزشتہ ہفتے سیلاب متاثرین کے لیے منعقدہ نمائشی میچ میں بڑی تعداد میں شائقین نے شرکت کی۔
پشاور کے رہائشی نواب شیر، جو 2006 کا آخری میچ دیکھنے بھی اسٹیڈیم آئے تھے، کہتے ہیں کہ اس بار آکر پرانی یادیں تازہ ہوگئیں۔ 2006 کے پاک انڈیا میچ کے دوران بھی اسٹیڈیم بھرا ہوا تھا اور آج بھی ویسا ہی جوش و خروش ہے۔
کے پی کے عوام پشاور میں کرکٹ میچز کی بحالی کے لیے بے تاب ہیں۔ حکومت کو سنجیدہ اقدامات کرنے چاہییں کیونکہ اس سے صوبے پر لگنے والا بدامنی کا تاثر بھی ختم ہوگا۔
مزید پڑھیں: خیبرپختونخوا میں 3 بڑے کرکٹ میچز کرانے کی تیاریاں شروع
نوجوان کرکٹر محمد یاسر بھی میچز کی بحالی کے منتظر ہیں۔ ان کے مطابق کے پی میں کرکٹ ٹیلنٹ موجود ہے اور میچز کے انعقاد سے ان کے حوصلے مزید بلند ہوں گے۔
حکومت تعمیراتی کام جلد مکمل کرکے کرکٹ کی بحالی کا وعدہ کر رہی ہے لیکن 19 برس سے منتظر ہیں ان کا سوال ہے کہ انتظار کب ختم ہوگا؟