پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پنجاب کے سیلاب زدہ علاقوں کے دورے کے دوران صورتحال کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اور ان کی ٹیم کی کوششوں کو خراج تحسین پیش کیا۔
یہ بھی پڑھیں: ’مجھے بھی گھر میں گڑیا کہہ کر بلاتے ہیں‘: مریم نواز کی سیلاب متاثرہ بچوں سے ملاقات، تحائف تقسیم
بلاول بھٹو نے قصور کے دورے کے موقعے پر مریم نواز اور ان کی ٹیم کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ وہ متاثرہ علاقوں میں نہایت محنت سے کام کر رہے ہیں۔
بلاول بھٹو نے قصور کے علاقے گنڈا سنگھ والا بارڈر پر سیلاب متاثرین سے ملاقات کی اور ان میں راشن کے تھیلے تقسیم کیے۔ اس دوران انہوں نے کسانوں اور متاثرہ افراد سے براہ راست گفتگو کی جنہوں نے انہیں اپنے مسائل سے آگاہ کیا۔
دریں اثنا پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ سیلاب نے بہت بڑی تباہی مچائی ہے جس سے نمٹنے کی صوبائی حکومت پوری کوشش بھی کر رہی ہے لیکن اس پیمانے پر آفت سے نمٹنے کے لیے وفاقی حکومت کا تعاون بھی ناگزیر ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ پنجاب میں سب سے زیادہ نقصان کسان طبقے کو ہوا ہے اور زرعی شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔
انہوں نے وزیراعظم سے مطالبہ کیا کہ ملک میں زرعی ایمرجنسی نافذ کی جائے تاکہ کسانوں کو بیج، کھاد اور دیگر ضروری سہولیات میں فوری ریلیف فراہم کیا جا سکے۔
مزید پڑھیے: بڑے ہوکر دشمن کے جہاز گرانا‘، بلاول بھٹو زرداری کا کمسن طالبعلم سے دلچسپ مکالمہ’
پارٹی چیئرمین نے پیپلزپارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں کو ہدایت کی کہ وہ متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے فوری امداد پہنچائی جائے۔
’مودی حکومت کا ہم سے واٹر ڈیٹا شیئر نہ کرنا خطرناک رجحان ہے‘
بلاول بھٹو زرداری نے بھارت کے رویے پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مودی حکومت نے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے اور اس مرتبہ ہمارے ساتھ پانی کا ڈیٹا شیئر نہیں کر رہی جو ایک خطرناک رجحان ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت کو عالمی قوانین کا پابند بنانا ہوگا کیوں کہ پانی کے ساتھ جو ’دہشتگردی‘ کی جا رہی ہے وہ براہ راست پاکستانی عوام کو نشانہ بنا رہی ہے۔
مزید پڑھیں: بھارت سے جنگ کے دوران میڈیا نے قومی بیانیے کو مضبوطی سے اجاگر کیا، بلاول بھٹو زرداری
انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان عالمی سطح پر بھرپور آواز اٹھائے گا کہ یا تو بھارت سندھ طاس معاہدے کی پاسداری کرے یا پھر پاکستان کو اس کے دریا واپس کرے۔