کیا بار بار اعضا کی پیوندکاری سے انسان امر ہو سکتا ہے؟شی جن پنگ اور پیوٹن کےدرمیان غیر متوقع گفتگو

جمعہ 5 ستمبر 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بیجنگ میں ایک عسکری پریڈ کے دوران روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان ہونے والی ملاقات میں ایک غیر متوقع موضوع زیر بحث آیا کہ کیا اعضا کی پیوندکاری کے ذریعے موت کو ہمیشہ کے لیے ٹالا جا سکتا ہے؟

یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب میں دنیا کی پہلی روبوٹک دل کی پیوندکاری، 16 سالہ مریض پر کامیاب آپریشن

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق پیوٹن کے مترجم، جو چینی زبان میں بات کر رہے تھے، نے شی جن پنگ کو بتایا کہ ’انسانی اعضا کی بار بار پیوندکاری کے ذریعے انسان عمر کے اثرات کو کم کر سکتا ہے اور ممکن ہے کہ بڑھاپے کو غیر معینہ مدت تک روکا جا سکے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس صدی میں یہ ممکن ہے کہ انسان کی عمر 150 سال تک پہنچ جائے۔

اگرچہ دونوں رہنما ہنستے مسکراتے دکھائی دیے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ مذاق میں کوئی سنجیدہ بات کر گئے؟

اعضا کی پیوندکاری: زندگی کی بچت یا طویل عمری کا خواب؟

فی الحال اعضا کی پیوندکاری کا بنیادی مقصد جان بچانا ہے۔ برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس کے مطابق گزشتہ 30 برسوں میں ایک لاکھ سے زائد افراد کی جانیں اعضا کی پیوندکاری سے بچائی جا چکی ہیں۔

ترقی یافتہ طبی ٹیکنالوجی کے باعث آج کل پیوند کردہ اعضا زیادہ عرصے تک فعال رہتے ہیں۔ کچھ مریض ایسے بھی ہیں جنہیں لگایا گیا گردہ 50 سال سے زائد عرصے تک کام کرتا رہا۔

مزید پڑھیے: پشاور: دنیا سے رخصت ہوتا 14 سالہ ہیرو 5 خاندانوں کو انمول خوشیاں دے گیا

لیکن ایک عضو کتنے عرصے تک فعال رہتا ہے یہ کئی عوامل پر منحصر ہوتا ہے جن میں ڈونر اور وصول کنندہ کی صحت، پیوندکاری کے بعد کی نگہداشت اور سب سے بڑھ کر عضو کی نوعیت شامل ہیں۔

اعضا اور ان کی لائف

گردہ زندہ ڈونر سے حاصل شدہ 20-25 سال اور مردہ ڈونر سے 15-20 سال، جگر 20 سال، دل 15 سال اور پھیپھڑے 10 سال تک چل سکتے ہیں۔

کیا مسلسل پیوندکاری ’ہمیشہ کی زندگی‘ کی کنجی ہے؟

اگر شی جن پنگ اور پیوٹن واقعی بار بار اعضا تبدیل کروا کر طویل زندگی کی بات کر رہے تھے تو یہ سائنس اور اخلاقیات دونوں کے لیے بڑا سوال ہے کیونکہ ہر بار سرجری کے دوران مریض کو شدید خطرات لاحق ہوتے ہیں، پیوندکاری کے بعد زندگی بھر قوت مدافعت کو دبانے والی دوائیں لینی پڑتی ہیں جن کے سائیڈ ایفیکٹس ہوتے ہیں اور یہ دوائیں جسم کے مدافعتی نظام کو اس قدر کمزور کر دیتی ہیں کہ معمولی انفیکشن بھی جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔

جانوروں کے اعضا اور انسانی خلیوں سے نئے اعضا کی تخلیق

سائنسدان اس وقت ’زینو ٹرانسپلانٹیشن‘ یعنی جانوروں سے انسانوں میں اعضا کی منتقلی) پر کام کر رہے ہیں۔

مثال کے طور پر جینیاتی طور پر ترمیم شدہ سور کے اعضا کو اس طرح تیار کیا جا رہا ہے کہ وہ انسانوں کے جسم میں ردعمل نہ دیں۔

مزید پڑھیں: انسانی جسم میں سور کے دل کی پیوندکاری کا دوسرا تجربہ، کیا یہ کامیابی بھی عارضی ہوگی؟

اب تک ایسے 2 مریضوں پر تجربات ہو چکے ہیں جنہیں سور کا دل یا گردہ لگایا گیا مگر دونوں مریض بعد ازاں وفات پا گئے۔ البتہ اس تحقیق سے اس شعبے میں نیا در کھلا ہے۔

دوسری طرف انسانی خلیات سے نئے اعضا پیدا کرنے پر بھی کام جاری ہے۔

یہ بھی پڑھیے: حق کی شمع جلائے رکھنے والی صحافی زبیدہ مصطفیٰ نے بعد از مرگ بھی زندگیوں میں روشنی بھردی

سنہ2020  میں برطانوی محققین نے تھائیمس (مدافعتی نظام کا اہم عضو) کو کامیابی سے لیبارٹری میں تیار کر کے چوہے کے جسم میں لگایا جو کہ کارآمد ثابت ہوا۔

حقیقت یا فسانہ؟

ٹیکنالوجی کے میدان کے مشہور شخصیت برائن جانسن ہر سال لاکھوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں تاکہ اپنی ’حیاتیاتی عمر‘ کو کم کیا جا سکے۔ انہوں نے تو یہاں تک کیا کہ اپنے 17 سالہ بیٹے کا پلازما خود میں منتقل کروایا — مگر کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ ملا۔

زندگی کی طوالت یا معیار، کیا بہتر؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ زندگی کی مدت بڑھانا الگ بات ہے لیکن معیاری زندگی جینا اصل مقصد ہونا چاہیے۔

یونیورسٹی آف ایڈنبرا کے پروفیسر نیل میبوٹ کے مطابق چاہے ہم اعضا کی پیوندکاری سے جسم کو کچھ عرصہ اور چلا لیں لیکن عمر کے ساتھ جسم کمزور ہوتا جاتا ہے اور ہر بار کی سرجری مزید خطرناک ہو جاتی ہے۔

مزید پڑھیں: صوبہ خیبر پختونخوا میں پہلی بار انسانی اعضا عطیہ کرنے کے لیے رجسٹریشن شروع

انہوں نے کہا کہ اگر بڑھاپے میں ہر کچھ عرصے بعد کسی نئے عضو کی پیوندکاری کرانی پڑے تو ایسی زندگی شاید زیادہ پرکشش نہ ہو  لہٰذا بہتر یہی ہے کہ ہم صحت مند زندگی گزارنے پر توجہ دیں نہ کہ صرف لمبی کی خواہش کی جائے۔

پیوٹن اور شی کا مذاق، سائنس کا سنجیدہ سوال

تو کیا انسان واقعی ایک دن ’امر‘ ہو سکے گا؟ شاید نہیں لیکن جدید سائنس ہمیں ضرور اس مقام تک لے جا رہی ہے جہاں بیمار جسم کو زیادہ دیر تک فعال رکھا جا سکے۔

تب تک بہتر یہی ہے کہ صحت مند طرز زندگی اپنائیں اور معالج کو سائنسدان پر ترجیح دیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp