ترک نژاد امریکی کارکن ایسنور ایزگی کی شہادت کو ایک سال مکمل، لواحقین تاحال انصاف کے منتظر

اتوار 7 ستمبر 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

فلسطین میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والی ترک نژاد امریکی کارکن ایسنور ایزگی ایگی کی شہادت کو ایک سال گزر گیا مگر انصاف آج تک نہیں مل سکا۔

ایسنور 6 ستمبر 2024 کو مغربی کنارے میں نابلس کے گاؤں بیتا میں غیرقانونی اسرائیلی بستی ایویاتار کے خلاف پرامن مظاہرے میں شریک تھیں۔ جمعہ کی نماز کے بعد اسرائیلی فوجیوں نے مظاہرین پر آنسو گیس اور فائرنگ کی۔ کچھ دیر بعد ایک اسرائیلی اسنائپر نے فائر کیا، ایک گولی 18 سالہ فلسطینی لڑکے کو لگی جبکہ دوسری گولی ایسنور کے سر میں جا گھسی۔ انہیں نابلُس کے اسپتال منتقل کیا گیا مگر وہ جانبر نہ ہو سکیں۔

یہ بھی پڑھیے: ترکیہ کا اسرائیل کیساتھ تمام تجارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان، فضائی حدود اسرائیلی طیاروں کے لیے بند

شہادت کے وقت ایسنور صرف 26 سال کی تھیں۔ امریکی اور ترک شہریت رکھنے والی یہ نوجوان سماجی کارکن انصاف اور انسانی حقوق کی جدوجہد کے لیے جانی جاتی تھیں۔ وہ پہلے اسٹینڈنگ راک (امریکا) میں مقامی باشندوں کے ساتھ آئل پائپ لائن کے خلاف احتجاج میں شریک رہیں، مہاجرین کے لیے بطور قانونی اسسٹنٹ خدمات انجام دیں اور یونیورسٹی آف واشنگٹن میں فلسطین سے یکجہتی کے لیے ہونے والی سرگرمیوں میں پیش پیش رہیں۔

دوستوں کے مطابق ایسنور نرم دل، بے حد باصلاحیت اور اصول پسند تھیں۔ وہ دوسروں کے دکھ درد میں شریک رہتی تھیں اور مشکل گھڑی میں ہمیشہ ساتھ دیتی تھیں۔

ایسنور کی شہادت کوئی انفرادی سانحہ نہیں۔ اسی دن نابلس کے ایک اور علاقے میں 13 سالہ فلسطینی بچی بنا امجد بکر بھی اسرائیلی فوج کی گولی کا نشانہ بنی۔

یہ بھی پڑھیے: پاکستان اور ترکیہ کے وزرائے خارجہ کا رابطہ، غزہ میں اسرائیلی مظالم کی شدید مذمت

یہ پہلا واقعہ بھی نہیں۔ اس سے قبل 2003 میں انٹرنیشنل سولیڈیرٹی موومنٹ سے وابستہ امریکی کارکن ریچل کوری اور برطانوی کارکن تھامس ہرنڈل کو بھی غزہ میں اسرائیلی فوج نے شہید کیا تھا۔

ایسنور کے اہلخانہ اور ساتھیوں نے امریکا سے آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا لیکن امریکی حکومت نے اسرائیل کو خود ہی تحقیقات کرنے کی اجازت دے دی جس کے بعد معاملہ دب گیا۔ واشنگٹن ریاست کے بیشتر سیاست دان اسرائیلی لابیوں کے زیرِ اثر ہیں اور مقتولہ کے لیے کوئی خاطر خواہ قدم نہیں اٹھایا گیا۔ صرف رکنِ کانگریس پرمیلا جے پال نے واضح مؤقف اختیار کیا۔

ایسنور کی تصویر، جو ان کی گریجویشن کے موقع پر لی گئی تھی، اب شہادت کی یادگار کے طور پر دنیا بھر کے اخبارات اور فلسطین کی گلیوں میں نظر آتی ہے۔ ان کے اہلخانہ کا کہنا ہے کہ خوشی کا وہ دن اب ہمیشہ کے لیے غم اور محرومی کی علامت بن گیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp