مان لیجیے صاحب۔۔۔!

ہفتہ 13 مئی 2023
author image

حماد حسن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

شعلوں میں گری ہوئی تاریخی عمارت کے اوپر سیاہ دھوئیں کا پہاڑ اچانک بلند ہوا تو بوڑھا آدمی لمحہ بھر کو لڑکھڑایا اور فوراً میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر سہارا لینے کی کوشش کی۔
میں نے انہیں تھام لیا اور ہم آہستہ آہستہ گاڑی کی طرف بڑھنے لگے۔ کچھ دیر بعد ہجوم اور ہنگامے سے نکل کر میں اپنے ساتھ موجود خیبر پختونخواہ کے سینئر ادیب، صحافی اور براڈ کاسٹرمشتاق شباب کے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔
مشتاق شباب کا گھر شہر کی مشرقی سمت واقع ہے۔ مشتاق شباب قدرے پرسکون ہوئے تو انہوں نے راکھ کا ڈھیر بنتی تاریخی عمارت کی کہانی شروع کی۔
یہ دہلی کے بعد پورے ہندوستان میں دوسرا ریڈیو اسٹیشن تھا جو 1935 میں بنا۔ پہلے ریڈیو کا دفتر سول سیکرٹریٹ کے دو کمروں (جہاں اب ہائی کورٹ کی عمارت ہے) میں قائم ہوا۔
لیکن 1942 میں موجودہ عمارت مکمل ہوئی اور ریڈیو پاکستان اسی میں شفٹ ہوا۔ احمد ندیم قاسمی، ن م راشد، کرتار سنگھ دگل، احمد فراز اور خاطرغزنوی جیسے شہ دماغ اسی عمارت میں کام کرتے اور اپنا رزق کماتے تھے۔
مشتاق شباب کی آواز میں لرزش نمایاں ہوئی تو لمحہ بھر کو خاموش ہوئے، تھوڑی دیر بعد خود کو پرسکون کرتے ہوئے مزید بتایا۔
اگست1947 کی 13 اور 14 تاریخ کی درمیانی رات 11 بج کر 59 منٹ پر ریڈیو پشاور کے براڈ کاسٹر آفتاب احمد نے پہلا اعلان کیا کہ یہ “آل انڈیا ریڈیو پشاور” ہے آپ اگلے اعلان کا انتظار فرمائیں۔
چند سیکنڈ بعد جیسے ہی رات کے 12 بجے تو آفتاب احمد نے اعلان کیا کہ یہ “ریڈیو پاکستان پشاور” ہے۔
گویا یہ پاکستان بننے کا باقاعدہ اعلان تھا جو اس عمارت سے ہوا، کچھ ہی دیر میں گاڑی مشتاق شباب کے گیٹ پر رکی تو انہوں نے ٹشو سے اپنی آنکھیں صاف کیں اور گاڑی سے اترتے ہوئے خود کلامی کے انداز میں کہا کہ ان بد بختوں کو کیا معلوم انہوں نے ایک عمارت نہیں بلکہ ایک تاریخ جلا کرراکھ کر دی۔
مشتاق شباب کو گھر پہنچا کر تھوڑی دیر بعد میں واپس ہنگامہ آرائی کی لپیٹ میں آئے شہر کے وسط میں پہنچا۔ ایک شخص ریڈیو پاکستان کی تاریخی عمارت سے ایک قیمتی مشین اٹھا کر بھاگنے لگا تو پشاور کے جہاندیدہ اور سینئر صحافی شمیم شاہد نے روک کرایک دکھ کے ساتھ پوچھا کہ آخراس مشین کا تم نے کیا کرنا ہے؟۔
’انقلاب‘ کے لیےعمران خان کے شانہ بشانہ جدوجہد کرنے والے شخص کے ہونٹوں پرزہریلی مسکراہٹ پھیل گئی اور بولا: ’’بجلی کا بل زیادہ آیا ہے، یہ مشین بیچ کر بل بھروں گا۔‘‘

“انقلاب” کی ایک اورچھوٹی سی کہانی بھی سنیے
ستارخان نے گاؤں کے خراب ہوتے ماحول سے بچوں کو بچانے اور مالی پریشانیوں کے سبب 2 سال پہلے پشاور شفٹ ہونے کا فیصلہ کیا اور تین مرلے کے گھر کا بالائی حصہ کرائے پر لیا۔
اس نے بیوی کا بچا ہوا باقی ماندہ زیور بیچا اور ایک قریبی عزیز سے کچھ قرض لےکر چھوٹی سی گاڑی خریدی۔ اب گھر کا چولہا، بچوں کی تعلیم اور کرایہ اس چھوٹی سی گاڑی کے ذمے لگ چکا تھا۔
لیکن اب یہ واحد سہارا بھی 14 یا 15 سال کے ’انقلابیوں‘ کے ہتھے چڑھ گیا اور ستار خان کا واحد ذریعہ آمدن چکنا چور شکل میں آج روڈ کے کنارے پڑا ہے۔

یہ تو اس مقبولیت کی محض ایک دو مثالیں ہیں جسے معقولیت چھو کر بھی نہیں گزری۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ اس ’بندر کے ہاتھ میں استرا‘ تھما دینے والے ان قومی مجرموں کے سامنے قانون اب بھی ہاتھ باندھے کیوں کھڑا ہے؟۔
ان کے ذاتی مفادات اور خواہشات ملک کو اس نہج پر لےکر آئی ہیں کہ عالمی برادری اریٹیریا اور سوڈان کو بھی بھول بیٹھی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ میں تباہی کے رستے پر چلتے اس ہجوم کو بھی قصور وارنہیں سمجھتا کیوں کہ جب تک آپ منتخب وزرائے اعظموں کو پھانسیوں پر لٹکاتے، سڑک پر تڑپتے چھوڑتے، تا حیات نا اہل کرتے، جیلوں میں ڈالتے، غدار کہتے اور جلا وطن کرتے رہیں گے۔
جب آپ پارلیمان کو بے وقعت کرتے، ربڑ سٹمپ بناتے اور ’چونسٹھ‘ کو ’چونتیس ‘ سے شکست دلواتے رہیں گے۔ جب آپ سیاست پر کنٹرول رکھنے کےلئے ’ایم کیو ایم‘ ، ’ق لیگ‘ اور ’پی ٹی آئی‘ تراشتے رہیں گے۔
جب آپ عدالتیں مرضی سے چلانے کے لئے جسٹس منیر سے ثاقب نثار تک اور وٹس ایپ سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو فیض حمید کی دھمکی دینے تک جیسے معاملات چلاتے رہیں گے۔
جب میڈیا میں بریگیڈئیر شفیق سے بول اور دوران شیو ’مستفید‘ ہونے سے چودھری غلام حسین تک جیسے تماشے لگاتے رہیں گے۔
جب اصل غدداروں یعنی فوجی آمروں کو ’پیٹی بند‘ ہونے کے ناطے بچاتے، جسٹس وقار احمد سیٹھ جیسے منصفوں کی عدالتیں اور فیصلے اڑاتے اور سابق جرنیلوں کی کرپشن پر احتساب کو شجر ممنوعہ قرار دیتے رہیں گے۔
تب تک پھر بدلتے ہوئے زمانے کے حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے مان لیجیئے کہ اس منظر نامے سےکوئی مہذب ڈسپلن نہیں بلکہ وہی ہجوم برآمد ہوگا جو ’بندر کے ہاتھ میں استرے‘ کی مثال عملی شکل میں سمجھا دیتے ہیں۔
پھر وہی ہوتا ہے کہ ’چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں‘۔ صاحب! مان لیجیئے کہ جس جاہلیت اور حواس باختگی کی کاشت آپ ہی کے منطقوں اور عساکر رفتگاں کے ہاتھوں ہوتی رہی وہی اب اپنے ریشے ریشے کو زہر آلود بنا کر نہ صرف ’فصلِ فنا‘ کا روپ دھار چکیں بلکہ اب اس کی ’بیلیں‘ آپ ہی کے در و دیوار کو لپیٹنےمیں لگی ہیں۔
صرف ’ریڈیو پاکستان‘ پشاور کی تاریخی عمارت کو جلا کر راکھ کے ڈھیر میں نہیں بدلا گیا، صرف ایدھی ایمبولینس سے مریضوں کو روڈوں پر اتار کرایمبولینس کو ’بھانبڑ‘ نہیں بنایا گیا۔
صرف شاہراہوں اورموٹرویزکو بند نہیں کیا گیا۔ صرف اہسپتالوں اور سرکاری عمارتوں میں بے شعور اور بے خبرغول نے گھس کر تباہی نہیں پھیلائی۔ صرف سیاستدانوں کو ’چور‘، ’ڈاکو‘ کہہ کر، ماں بہن کی ننگی گالیاں نہیں دی گئیں۔ بلکہ اب تو وہ شعر آپ کے حوالے سے بھی صادق آنے لگا ہے۔
’لگے کی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں‘
کوئی بندہ اگرصاحب ہوش ہو تو پھر وہ آپ کے دکھ اوراذیت پربھنگڑا کیوں ڈالے گا، خوشی کا اظہار کیوں کرے گا، طعنے کیوں دے گا، بلکہ ہمدردی کا احساس ہی ابھرے گا۔دکھی اورغمگین ہی ہوگا۔
خدا کی قسم جنہیں سب سے زیادہ دکھی اور اداس دیکھا وہ وہی لوگ تھے جو اپنی سچائی کے باعث آپ کے عتاب کا نشانہ بنتے رہے۔ جبکہ آپ کے پالے ہوؤں کا رویہ پوری دنیا کے سامنے ہے۔

لیکن ماننا پڑے گا کہ وطن کا درد تو کسی صحافتی جیب کترے کسی ذہنی طور پرمجنوں اور کسی نیم پاگل کو نہیں بلکہ ایک دانشمند ایک صاحب ہوش اور ایک پرخلوص آدمی ہی کو ہوگا۔ سو بارِ دگر گزارش کروں گا کہ مان لیجیئے صاحب!
کہ اب اگر ہم سب نے اجتماعی طور پر زندہ بھی رہنا ہے اور آگے بھی بڑھنا ہے تو آخری اور واحد راستہ صرف ایک ہی ہے’ آئین و قانون کی سربلندی اور یکساں عملداری، اور بس۔‘ ماضی پرمٹی بھی ڈالنا پڑے تو ڈال دیجیئے، سودا پھربھی مہنگا نہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp