بنوں ایف سی ہیڈکوارٹر پر حملے میں ملوث 3 خودکش بمباروں کی شناخت ہوگئی ہے، تینوں افغان شہری نکلے۔
پہلا خودکش بمبار عبدالعزیز عرف قادر مہاجر تھا جو ضلع متہ خان، پکتیکا کا رہائشی نکلا۔ اس نے اس سے قبل ایک ویڈیو پیغام جاری کیا تھا جس میں اس نے پاکستان میں حملہ کرنے کے لیے تحریک طالبان پاکستان سے مدد طلب کی تھی۔ اُس وقت اس نے اپنے موجود ہونے کی جگہ برامچہ، ضلع ہلمند افغانستان بتائی تھی۔
یہ بھی پڑھیے: بنوں: ایف سی ہیڈکوارٹر پر دہشتگردوں کا حملہ، 6 جوان شہید، 5 دہشتگرد ہلاک
دوسرے خودکش بمبار کی شناخت مولوی شبیر احمد عرف میلی وچ بلال مہاجر ولد ملابو اسمعٰت اللہ کے نام سے ہوئی جو ضلع وردک کے علاقے سعیدآباد کے گاؤں عبدالمحی الدین کا رہائشی تھا۔
تیسرا خودکش بمبار نجیب اللہ عرف حذیفہ مہاجر، ضلع خوست کے علاقے موسٰی خیل کا رہائشی تھا۔ یہی وہ حملہ آور تھا جس نے بارود سے بھری گاڑی فرنٹیئر کانسٹیبلری لائنز کے اندر دھماکے سے اڑائی۔
تحقیقات کے مطابق حملے میں شامل 5 دہشت گردوں میں سے تین خودکش بمبار افغان شہری تھے۔
پاکستان طویل عرصے سے یہ مؤقف اختیار کر رہا ہے کہ افغان شہری پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہیں اور انہیں افغان مہاجرین کے اندر موجود مخصوص عناصر کی مدد بھی حاصل ہے۔ اب 70 سے 80 فیصد دہشت گرد گروپوں کی تشکیلیں افغانستان سے آنے والے افغان باشندوں پر مشتمل ہیں۔
لیکن جب بھی ریاست دہشتگردوں کے کیمپوں کے خلاف کارروائی کرنے یا افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے اقدامات کا اعلان کرتی ہے تو فوراً ہی دہشت گردوں کا پی ٹی ایم، خیبرپختونخوا حکومت، نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیمیں اور بعض لبرل گروہوں سے گٹھ جوڑ، شور شرابا شروع کر دیتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: رینجرز اہلکاروں پر حملہ کیس میں ایم کیو ایم کارکن کی اپیل پر فیصلہ محفوظ
یہ عناصر دہشت گردوں کو انسانی حقوق کے پردے میں ڈھال فراہم کرتے ہیں اور ریاستی ردعمل کو محدود کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہی لوگ مشکوک ذرائع سے مالی فائدہ اٹھاتے ہیں جبکہ پاکستان مسلسل خون میں نہایا ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کب تک پاکستانی عوام ان انارکی پھیلانے والوں کو نظرانداز کرتے رہیں گے جو معصوم شہریوں کی لاشوں پر پیسہ کما رہے ہیں؟ اور کب تک دنیا افغان حکومت کی جانب سے دہشت گردوں کی پشت پناہی کو نظرانداز کرتی رہے گی؟