مظاہرین نے صدر رام چندر پوڈیل اور وزیر اعظم اولی کی نجی رہائش گاہوں کو بھی آگ لگا دی ہے جبکہ پارلیمنٹ کی عمارت کو نقصان پہنچایا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز سامنے آئی ہیں جن میں مظاہرین کو صدر کی رہائش گاہ میں گھومتے اور اسے نقصان پہنچاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سابق نیپالی وزرائے اعظم پشپ کمل دہال عرف پراچنڈ، شیر بہادر دیوبا، اور وزیر توانائی دیپک کھڈکا کے گھروں کو بھی مظاہرین نے نقصان پہنچایا۔
نیپال میں سوشل میڈیا پر پابندی کے خلاف ہونے والے ملک گیر احتجاج میں 19 افراد کی ہلاکت کے بعد وزیراعظم شرما اولی مستعفی ہوگئے ہیں۔
وزیراعظم نے اپنا استعفیٰ نیپالی صدر کو پیش کرکے کہا ہے کہ وہ مسئلے کا سیاسی حل چاہتے ہیں، دوسری طرف صدر نے نئے وزیراعظم کی نامزدگی کے لیے بات چیت شروع کردی ہے۔ دوسری طرف ملک کے وزیر داخلہ رمیش لکھک نے بھی کچھ دیر قبل اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
نیپال میں حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا پر پابندی کے خلاف مظاہرے! pic.twitter.com/DDlpQ0YDE4
— WE News (@WENewsPk) September 9, 2025
وزیر اطلاعات پرتھوی سبا گرونگ نے تصدیق کی کہ حکومت نے گزشتہ ہفتے لگائی گئی سوشل میڈیا پابندی واپس لے لی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے سوشل میڈیا پر عائد پابندی ختم کر دی ہے، اب تمام پلیٹ فارمز کام کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: آسٹریلیا میں نابالغوں پر سوشل میڈیا پابندی: سرکاری رپورٹ میں بڑے انکشافات

پابندی کے تحت 26 پلیٹ فارمز بلاک کر دیے گئے تھے جن میں واٹس ایپ، فیس بک، انسٹاگرام، لنکڈ اِن اور یوٹیوب شامل تھے۔ حکومت کا مؤقف تھا کہ یہ اقدام غلط معلومات، فراڈ اور نفرت انگیز مواد روکنے کے لیے کیا گیا تھا۔
پابندی کے خلاف زیادہ تر نوجوانوں اور طلبہ نے سڑکوں پر نکل کر مظاہرے کیے جنہیں ‘جنریشن زیڈ احتجاج’ کا نام دیا جا رہا ہے۔ پیر کے روز ہزاروں افراد کٹھمنڈو اور دیگر شہروں میں جمع ہوئے جہاں پولیس اور مظاہرین کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں۔
💥 NEPAL
Looks like Bangladesh type Modus operandi: Youth protesting against the govt on roads, entering Parliament & creating chaos.
01 protester died, several injured.#BreakingNews #Nepalprotest #chaos pic.twitter.com/IoyBq9V6bL
— Mritunjay Kumar (@Mritunjayrocks) September 8, 2025
کٹھمنڈو میں پارلیمنٹ کمپلیکس پر دھاوا بولنے کی کوشش پر پولیس نے لاٹھی چارج، واٹر کینن، آنسو گیس اور براہِ راست فائرنگ کی۔ صرف دارالحکومت میں 17 افراد ہلاک ہوئے جبکہ مشرقی شہر اتاہری میں مزید 2 افراد جان کی بازی ہار گئے۔
یہ بھی پڑھیے: پشاور ہائیکورٹ میں پشتو ٹک ٹاک لائیو پر پابندی کی درخواست کیوں دائر کی گئی؟
پورے ملک میں 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے، بعض اطلاعات کے مطابق یہ تعداد 400 تک ہے جن میں پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ یہ بدامنی گزشتہ کئی دہائیوں میں نیپال میں ہونے والے سب سے شدید واقعات میں شمار کی جا رہی ہے۔

اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق نے مظاہرین پر فورسز کی جانب سے طاقت کے غیر ضروری اور غیر متناسب استعمال پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اموات اور زخمیوں کے معاملے کی شفاف تحقیقات ہونی چاہئیں۔
حکومت نے اعلان کیا ہے کہ واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی قائم کی جائے گی اور ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کو معاوضہ دیا جائے گا۔














