آج صبح وی نیوز آفس میں میٹنگ کے دوران بتایا گیا کہ دوپہر کو پی ٹی آئی اپنی پارلیمنٹ کا اجلاس اڈیالہ جیل کے باہر کرے گی جس کی کوریج کے لیے رپورٹر کو اڈیالہ جیل جانا چاہیے، رپورٹر نے پی ٹی آئی کے 3 ارکان قومی اسمبلی سے رابطہ کیا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ کس وقت اڈیالہ جیل کے باہر اجلاس ہوگا اور کون کون سے رہنما شرکت کریں گے تو تینوں رہنماؤں نے کہا کہ وہ اس طرح کے کسی اجلاس میں شرکت نہیں کر رہے اور نہ ہی ان کو کسی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔
دوپہر ایک بجے تپتی دھوپ میں رپورٹر اڈیالہ جیل کے باہر پہنچا اور وہاں موجود صحافیوں سے سلام دعا کے بعد استفسار کیا کہ یہاں کیا معمول ہے اور کیا آج کسی اسمبلی ارکان نے پارلیمنٹ اجلاس کا اعلان کر رکھا ہے؟
جیو نیوز کے رپورٹر شبیر ڈار نے بتایا کہ کسی بھی پارلیمنٹ کے اجلاس کی تو کوئی خبر ہمارے پاس نہیں ہے البتہ سلمان اکرم راجا علیمہ خان اور بیرسٹر گوہر نے آج عمران خان سے ملاقات کے لیے آنا ہے اور عموماً وہ دن 2 بجے کے قریب ملاقات کے لیے آتے ہیں۔
اڈیالہ جیل سے کچھ فاصلے پہلے پولیس نے چوکی لگا رکھی تھی اور صرف مقامی لوگوں کو وہاں سے آگے جانے دیا جا رہا تھا اس کے علاوہ میڈیا رپورٹرز دیگر پی ٹی آئی ارکان اور عام لوگوں کو جوگی پر روک دیا جاتا تھا۔
علیمہ خان جیسے ہی پولیس چوکی پر پہنچیں تو وہاں موجود پولیس اہلکاروں نے ان کی گاڑی کو گھیر لیا اس دوران مجھ سمیت میڈیا نمائندوں نے اپنے موبائل فونز نکالے اور علیمہ خان گفتگو کی ریکارڈنگ شروع کر دی۔
علیمہ خان کی گفتگو کی ریکارڈنگ کے دوران سادہ کپڑوں میں ملبوس ایک شخص نے میرا موبائل مجھ سے چھین لیا جس پر میں نے اس کو بتایا کہ میں ایک صحافی ہوں اور یہ میرا کارڈ ہے جس پر اس نے وہ کارڈ بھی کھینچ کر پیچھے کھڑے ایس ایچ او کو موبائل اور کارڈ دے دیا اور کسی دوسرے شخص کا موبائل ضبط کرنے چلا گیا۔
مزید پڑھیں: ’میری آواز دبائی گئی‘، اڈیالہ جیل کے باہر علیمہ خان پر صحافی کے سنگین الزامات
پولیس چوکی پر موجود ایس ایچ او اعزاز نے کہا کہ آپ کا فون آپ کو تھوڑی دیر کے بعد دے دیا جائے گا ابھی آپ یہ جگہ خالی کر دیں وگرنہ آپ لوگوں کو گرفتار کر لیا جائے گا اس کے بعد میں وہاں موقع سے 300 فٹ دور چلا گیا اور انتظار کرتا رہا کہ مجھے بلا کر موبائل فون دے دیا جائے۔
اس دوران میں نے مشاہدہ کیا کہ میرے علاوہ بھی بہت سے لوگوں کے موبائل فون ضبط کر لیے گئے ہیں اور ان کو یہ کہا جا رہا ہے کہ جس وقت یہ پی ٹی آئی یا کارکنان اور رہنما چلے جائیں گے اس کے بعد آپ کے موبائل فون کا ڈیٹا چیک کیا جائے گا اور پھر آپ کو موبائل فون واپس کیے جائیں گے۔
قریباً ایک گھنٹہ گزرنے کے بعد میں اسی مقام پر پہنچا جہاں پر موبائل فون ضبط کیے گئے تھے تو وہاں موجود پولیس اہلکاروں نے کہا کہ ابھی سیکیورٹی بہت سخت ہے آپ کا فون ہمارے پاس محفوظ ہیں ہم گھروں کو نہیں جا رہے آپ کی فون ہمارے پاس امانت ہے آپ کے حوالے کر کر جائیں گے جس پر میں مزید انتظار کے لیے ایک درخت کے سائے میں بیٹھ گیا۔
مزید پڑھیں: توشہ خانہ ٹو کیس: عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف اڈیالہ جیل میں ہونے والی سماعت منسوخ
2 گھنٹے بعد یعنی 5 بجے جب رش کافی کم ہو گیا میں ایک مرتبہ پھر سے پولیس چوکی پر موجود پولیس اہلکار اور اس شخص کے پاس گیا جس نے میرے سے موبائل فون چھینا تھا تو اس شخص نے کہا بھائی آپ میرا حلیہ دیکھیں میں تو دیگ والا ہوں میں یہاں پر صرف کھانا بانٹنے کے لیے آیا ہوں اگر آپ نے کھانا کھانا ہے تو میں آپ کو کھانا کھلا دیتا ہوں البتہ نہ تو پولیس نہ ہی کسی اور شخص سے میرا کوئی تعلق ہے، میں تو کسی کو جانتا بھی نہیں ہوں اور آپ سے بھی میری پہلی ہی ملاقات ہو رہی ہے ہو سکتا ہے کہ آپ سے کسی اور نے موبائل چھینا ہو۔
یہ سن کر میں پولیس چوکی پر موجود ایس ایچ او اعزاز کے پاس میں گیا اور درخواست کی کہ سر میری چھوٹی بیٹی نے اکیڈمی جانا ہوتا ہے اور اس کو واپس میں نے پک کرنا ہوتا ہے اس کا ٹائم ہو گیا ہے مجھے صرف فون دے دیا جائے تاکہ میں اطلاع دے دوں کہ کوئی اور گھر سے جا کر اس کو لے لے جس پر ایس ایچ او نے مجھے کہا بھائی میرے تو پاس اپنا فون بھی نہیں ہے میرے بچے بھی سکول پتا نہیں گئے تھے نہیں گئے کب آئے ہیں، میرا خود کسی کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے اور ساتھ میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ میرے پاس تو آپ کا فون ہے ہی نہیں میں نے تو آپ سے فون لیا ہی نہیں ہے جس نے آپ سے فون لیا ہے آپ اس سے بات کریں۔
شام 6 بجے جب پی ٹی آئی کارکنان کی بڑی تعداد اڈیالہ جیل کے باہر سے روانہ ہوئی اور پولیس اہلکار اپنی ڈیوٹی ختم کرکے گھروں کو جانا شروع ہو گئے تو میں نے سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار سے دوبارہ درخواست کی کہ سر وقت بہت زیادہ ہو گیا ہے میرا فون مجھے دلوا دیں جس پر انہوں نے کہا بھائی آپ کا فون ہم نے لیا ہی نہیں ہے ہم کوئی چور ہیں کہ آپ کا فون لے لیں گے یا چوری کرلیں گے۔
مزید پڑھیں: جوتے، سیاہی اور انڈہ گردی
ہمیں نہیں معلوم آپ کا فون کدھر ہے کچھ ہی دیر بعد وہی چاولوں کی دیگ والے نے مجھے کہا کہ بھائی آپ تھوڑی دیر سائیڈ پہ ہو جائیں آپ کو فون 2 گھنٹے کے بعد مل جائے گا جس پر میں نے اس سے کہا بھائی بہت وقت ہو گیا ہے کوئی ایمرجنسی بھی ہو سکتی ہے آپ میرا فون دے دیں تو وہ کہتے ہیں یار میں تو آپ سے نیکی کر رہا ہوں کہ آپ کا فون کوشش کرکے آپ کو دلوا دوں، میں نے کہا چلیں ٹھیک ہے جس پر اس شخص نے مجھے کہا کہ 5 منٹ بعد آئیں اور اپنا فون لے جائیں۔
کچھ ہی لمحوں بعد اس شخص نے مجھے دوبارہ اشارہ کیا اور کہا کہ بھائی آ جاؤ جس پر میں اس کے پاس گیا تو اس نے میرا ضبط کیا گیا کارڈ اور میرا موبائل فون دونوں کی تصویر میرے ہاتھ میں تھما کر بنائی اور کہا کہ بہت خوش قسمت ہیں کہ آپ کو آج ہی کے دن فون مل گیا ہے ورنہ یہاں پر لوگوں کو دو 2 تین 3 دن کے بعد فون واپس دیے جاتے ہیں اور کچھ کو تو واپس بھی نہیں دیے جاتے کیونکہ جن صحافیوں کے موبائل فون چوری ہوئے ان کی برآمدگی بھی تو کرنی ہے، اور موبائل فون پورے کرنے ہیں۔