قطر پر اسرائیلی حملے سے پیدا ہونے والے سوالات میں ، سب سے اہم سوال یہ ہے کہ چین کہاں ہے؟ آپ کہہ سکتے ہیں کہ چین کا تو قطر کے ساتھ کوئی دفاعی معاہدہ نہیں کہ اس سے کوئی امید باندھی جائے، آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ قطر نے تو دفاعی معاملات امریکا کے ساتھ طے کر رکھے ہیں تو پھر سوال امریکا کی بجائے چین سے کیوں؟ آپ یہ رہنمائی بھی فرما سکتے ہیں کہ چین کسی دوسرے کی لڑائی کیوں لڑے؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اس سب کے باوجود یہ سوال اہم ہےاور ایس سی او کے حالیہ اعلامیہ کے بعد تو مجھےاس سوال پر اصرار بھی ہے؟
سوالات اور بھی بہت سارے ہیں لیکن وہ اب غیر اہم ہو چکے ہیں، ان پر تکرار لاحاصل ہے۔
مثلاً، سوال یہ بھی ہیں کہ کیا اقوام متحدہ کی کوئی افادیت باقی رہ گئی ہے؟ کیا یہ حملہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 2 کی پامالی نہیں؟ کیا اس چارٹر کا کوئی تقدس باقی ہے؟ کیا عالمی عدالت انصاف میں اتنا دم خم ہے کہ جارحیت کے مرتکب اسرائیل کو کٹہرے میں کھڑا کر سکے اور کہیں ایسا تو نہیں کہ لیگ آف نیشنز کی طرح اقوام متحدہ بھی اپنی طبعی عمر مکمل کر چکی ہو اور اب وقت آ گیا ہو کہ دنیا کسی نئے متبادل پر غور کرنا شروع کر دے؟ کیا انٹر نیشنل لا کی اس مرتی مارتی دنیا میں کوئی حیثیت باقی رہ گئی ہے؟
یہ فہرست مزید طویل بھی ہو سکتی ہے لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ سوالات اپنی معنویت کھو چکے ہیں۔ اسرائیل آئے روز ان کے جوابات دے رہا ہے۔ یہ بات اب دیوار پر لکھی ہے کہ معاملہ اسرائیل کا ہو تو اقوام متحدہ بھی بے معنی ہے اور اس کا چارٹر بھی۔ اس صورت میں انٹر نیشنل لا بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتا اور عالمی انصاف بھی بے بس ہو جاتی ہے۔ ان سوالات پر جتنی بحث ہو سکتی تھی، میں نے اپنی کتاب ’فلسطین: بین الاقوامی قانون کے تناظر میں‘ میں کر دی ہے۔ اب ان سوالات پر مزید گفتگو کار لاحاصل ہے۔
جو سوال اس وقت اہم ہے، اور جس کی معنویت بھی ہے وہ اقوام متحدہ، انٹر نیشنل لا یا او آئی سی کا نہیں، وہ چین کا ہے۔ سوال وہی ہے: چین کہاں ہے؟
اسرائیل کے معاملے میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بھی اتنے ہی بے بس ہیں جتنی رملہ میں بیٹھی فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس۔ مسلم دنیا کا حال بھی ہمارے سامنے ہے۔ امریکا ہے تو اس نے اسرائیل کی خاطر اتنی قرار دادیں ویٹو کی ہیں جتنی باقی سب نے مل کر بھی نہیں کیں۔ اس سے اسرائیل کی شکایت ایسے ہی ہے جیسے مجنوں سے لیلیٰ کی شکایت کی جائے۔ پاکستان کو بھارت نے انگیج کر رکھا ہے، اور اب دہشتگردی کا چیلنج اس کے سوا ہے۔ روس یوکرین میں الجھا ہے۔ باقی صرف چین ہے۔ یہ صرف چین ہے جس میں دم خم اور صلاحیت ہے کہ اسرائیل کی گرفت کرے تو اس کی بات اسرائیل کو بھی سننا پڑے گی اور امریکا کو بھی۔
معامہ یہ نہیں کہ چین فلسطین یا قطر کے لیے کیوں بولے؟ بات یہ ہے کہ چین خاموش کیسے رہے گا؟ سوال غزہ یا قطر کا نہیں، سوال چین کا ہے۔
دنیا بدل رہی ہے۔ چین ایک قوت کے طور پر ابھر رہا ہے۔ اگرچہ چین کی یہ پالیسی نہیں کہ وہ کسی تصادم کا حصہ بنے لیکن ابھرتی قوت کے طور پر چین تصادم کو نظر انداز بھی نہیں کر سکتا۔ تصادم اور لاتعلقی کے بیچ میں بھی ایک دنیا ہوتی ہے۔ صرف معاشی قوت بننا کافی نہیں ہوتا۔ اگر آپ دنیا کے تزویراتی معاملات سے لاتعلق ہو بیٹھیں، اگر آپ ایک قوت کے طور پر بروئے کار نہ آ سکیں، اگر آپ دنیا میں ایک متبادل تزویراتی بیانیہ نہ دے سکیں تو پھر معاشی قوت ہونا کافی نہیں۔
اس ساری بحث میں ایس سی او کے اعلامیے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ یہ اعلامیہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے، یہ بتا رہا ہے کہ چین اب دنیا کے معاملات سےلاتعلق نہیں رہنا چاہتا۔ چین نے البتہ اپنی سمت واضح کر دی ہے کہ وہ اقوام متحدہ اور اس کے چارٹر سے جڑا ہوا ہے۔ اس اعلامیے میں جتنی بار اقوام متحدہ اور اس کے چارٹر کا حوالہ دیا گیا ہے وہ حیران کن ہے۔
چین نے شاید مغربی دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ ہم آپ سے الگ ہو کر کچھ نیا نہیں کرنے جا رہے، کوئی نیا بلاک نہیں بنا رہے، آپ کے لیے کوئی خطرہ پیدا نہیں کر رہے، بلکہ ہم اقوام متحدہ ہی سے وابستہ ہیں اور اسی کے اصولوں کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہ پیغام اس وقت دیا گیا جب امریکا اقوام متحدہ کو مکمل نظر انداز اور بے توقیر کر چکا ہے اور اسرائیل غزہ میں اقوام متحدہ کے دفاتراور عملےکو نشانہ بناتا ہے تو اسے معمول سمجھا جاتا ہے۔
ایس سی او کا اعلامیہ بتاتا ہے کہ اقوام متحدہ کے جس پرچم کو امریکا نے پرے پھینک دیا ہے، اسے چین نے تھام لیا ہے اور دنیا کو پیغام دے رہا ہے کہ آؤ! اقوام متحدہ کے قوانین کے تحت ایک پرامن دنیا تخلیق کریں یعنی چین کو اب غزہ اور قطر کے لیے نہیں، اقوام متحدہ کے ان اصولوں کی حرمت کی خاطر بولنا ہے جنہیں امریکا اور اسرائیل بے رحمی سے پامال کر چکے۔
ایک طرف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس ہونے جا رہا ہےاور دوسری جانب اس اجلاس سے پہلے، صرف 24 گھنٹوں کے اندر، اسرائیل 4 ممالک پر حملے کر چکا ہے اور ٹھونک بجا کرا س کی ذمہ داری بھی قبول کر رہا ہے۔ یہ صرف پڑوسیوں کے لیے پیغام نہیں، یہ ایس سی او اعلامیے میں اقوام متحدہ کے لیے کہے گئے سہروں کا جواب آں غزل بھی ہے کہ اقوام متحدہ، اس کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون سے اخذکردہ کوئی دلیل طاقت نہیں بلکہ امریکا اور اسرائیل کی طاقت ہی سب سے بڑی دلیل ہے۔
اقوام متحدہ اور انٹر نیشنل لا سے بے نیاز ہو کر اگر امریکا یا اسرائیل اسی طرح جارحیت کا ارتکاب کرتے رہے اور ان کے آگے دنیا اسی طرح بے بسی کی تصویر بنی رہی تو یہ رویہ ان سارے امکانات کو پامال کر دے گا جو چین دنیا کے سامنے رکھ رہا ہے۔
چین کی اتنی طاقت کافی نہیں کہ کوئی اس سے نہ الجھے۔ چین کے لیے اس طاقت کا اظہار بھی اب ضروری ہے کہ کوئی اقوام متحدہ کے چارٹر کو پامال کر کے کسی پر چڑھ دوڑے تو چین اس پر بات کرے اور دنیا کو سننا پڑے کہ چین کیا کہہ رہا ہے۔
گر یہ نہیں تو بابا، باقی کہانیاں ہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔