نیپال کے وزیراعظم کے پی شرما اولی نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے، یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب بدعنوانی کے خلاف جاری احتجاج کے دوران پولیس جھڑپوں میں کم از کم 22 افراد ہلاک ہوگئے۔
وزیراعظم کے دفتر کے مطابق، استعفیٰ اس لیے دیا گیا تاکہ موجودہ بحران کا آئینی حل نکالا جاسکے۔
Once again the Straw Hat flag was raised in protest but this time against the current government conditions in Nepal.
Nepal’s Gen Z protesters have chosen the Straw Hat flag embracing it as a powerful symbol of freedom, resistance, and defiance amid escalating unrest against… pic.twitter.com/DUOmAche5B
— Pew (@pewpiece) September 9, 2025
سوشل میڈیا پابندی اور احتجاج کا آغاز
احتجاج کا آغاز اس وقت ہوا جب حکومت نے 26 سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، جن میں فیس بک، انسٹاگرام اور واٹس ایپ شامل ہیں، پر پابندی عائد کردی۔
ناقدین کے مطابق یہ اقدام نوجوانوں کی بدعنوانی مخالف تحریک کو دبانے کی کوشش تھی، اگرچہ حکومت نے پیر کی رات یہ پابندی ختم کردی تھی لیکن احتجاج مزید شدت اختیار کرگیا۔
پرتشدد مظاہرے
کٹھمنڈو سمیت کئی شہروں میں ہزاروں نوجوان، جو خود کو ’جنریشن زی‘ قرار دیتے ہیں، سڑکوں پر نکل آئے، پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس، لاٹھی چارج، پانی کی توپیں اور براہِ راست فائرنگ کی۔
منگل کو مشتعل مظاہرین نے پارلیمنٹ اور نیپالی کانگریس پارٹی کے ہیڈکوارٹر کو آگ لگا دی جبکہ سابق وزیراعظم شیر بہادر دیوبا سمیت کئی سیاست دانوں کے گھروں پر بھی حملے کیے گئے۔
ہلاکتیں اور زخمی
بی بی سی نیپالی کے مطابق اب تک کم از کم 22 افراد ہلاک جبکہ تقریباً 200 زخمی ہوئے ہیں۔ اسپتالوں میں گولیوں اور ربڑ کی گولیوں سے زخمی ہونے والے نوجوانوں کا علاج جاری ہے۔ پولیس اہلکار بھی جھڑپوں میں زخمی ہوئے ہیں۔
فوج کا کردار
نیپالی فوج کے سربراہ جنرل اشوک راج سگڈیل نے کہا ہے کہ مظاہرین بحران کا فائدہ اٹھا کر سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر حالات قابو میں نہ آئے تو فوج کارروائی کرے گی، تاہم ساتھ ہی مذاکرات کی بھی پیشکش کی ہے۔
نوجوانوں کی قیادت میں نئی تحریک
یہ تحریک کسی جماعت یا شخصیت کی قیادت میں نہیں بلکہ نوجوانوں اور طلبہ کی کال پر چل رہی ہے۔ مظاہرین کے مطابق ان کا مقصد صرف سوشل میڈیا پر عائد پابندی ختم کرانا نہیں بلکہ بدعنوانی کے خاتمے کا مطالبہ بھی ہے۔
’نیپو بے بی‘ اور ’نیپو کڈز‘ جیسے سلوگن اس احتجاج کی علامت بن گئے ہیں، جو سیاسی خاندانوں کی عیاشیوں کے خلاف عوامی غصے کی عکاسی کرتے ہیں۔
نیپو کڈز؟
احتجاج کی ایک نمایاں خصوصیت 2 نعرے ہیں جو بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا پر استعمال کیے جا رہے ہیں، نیپو بے بی اورنیپوکڈز۔
یہ دونوں اصطلاحات حالیہ ہفتوں میں نیپال میں اس وقت مقبول ہوئیں جب سیاست دانوں اور ان کے خاندانوں کی عیش و عشرت بھری زندگیوں کی ویڈیوز وائرل ہوئیں۔
Wake up Nepal !! Rise up Nepal !! #corruptkids #nepokids
Don't Stop exposing! Keep it up!! pic.twitter.com/gmMOPBV5SB— न B न (@Nabin62158820) September 7, 2025
مظاہرین کا مؤقف ہے کہ یہ لوگ بغیر کسی قابلیت کے محض عوام کے پیسے پر عیش کر رہے ہیں جبکہ عام نیپالی شہری مشکلات کا شکار ہیں۔
ٹک ٹاک اور انسٹاگرام پر وائرل ویڈیوز میں سیاسی خاندانوں کی پرتعیش زندگیوں، ڈیزائنر کپڑوں، غیر ملکی سفر اور مہنگی گاڑیوں، کا موازنہ نوجوانوں کی تلخ حقیقتوں سے کیا گیا ہے، جن میں بیروزگاری اور ہجرت پر مجبور ہونا شامل ہے۔
یہ نعرے اب عدم مساوات کے خلاف گہرے غصے کی علامت بن گئے ہیں، جہاں مظاہرین اشرافیہ کی زندگی کو عام شہریوں کی زندگیوں کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں۔
آگے کیا ہوگا؟
وزیراعظم کے مستعفی ہونے کے بعد یہ واضح نہیں کہ ملک کی باگ ڈور کس کے ہاتھ میں ہوگی، کچھ وزرا نے سیکیورٹی فورسز کی پناہ لے لی ہے جبکہ مظاہرین کرفیو کو نظرانداز کرتے ہوئے سڑکوں پر موجود ہیں، تجزیہ کاروں کے مطابق اگر حکومت نے مؤثر اقدامات نہ کیے تو بدامنی مزید بڑھ سکتی ہے۔