روس کی سرکاری گیس کمپنی گیزپروم کے سربراہ الیکسی ملر نے دعویٰ کیا ہے کہ چین کے ساتھ نئی گیس پائپ لائن بچھانے پر معاہدہ طے پا گیا ہے، تاہم ماہرین کے مطابق منصوبے کے کئی پہلو اب بھی غیر واضح ہیں۔ اس منصوبے کو ‘پاور آف سائبیریا 2’ کہا جا رہا ہے جو روس کے لیے یورپی منڈی کا متبادل بن سکتا ہے۔
یہ پائپ لائن 6 ہزار 700 کلومیٹر طویل ہوگی جو روس کے یامال کے گیس ذخائر سے منگولیا کے راستے چین تک پہنچے گی۔ دہائیوں تک روس انہی ذخائر سے یورپ کو گیس فروخت کرتا رہا لیکن یوکرین پر حملے کے بعد یورپ نے روسی گیس خریدنا کم کر دی اور 2027 تک اس پر مکمل انحصار ختم کرنے کا اعلان کیا۔ اسی پس منظر میں روس اپنی گیس کی برآمدات کو چین کی طرف موڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: روس-چین قربتیں، کیا دنیا، مغرب کے بغیر آگے بڑھنے کو تیار ہے؟
اس منصوبے کے ذریعے سالانہ 50 ارب کیوبک میٹر گیس چین کو فراہم کی جائے گی جبکہ یورپ کو ماضی میں 180 ارب کیوبک میٹر تک سپلائی کی جاتی تھی۔ یعنی یہ منصوبہ یورپ میں کھوئی گئی آمدنی کا صرف ایک حصہ ہی پورا کرسکے گا۔
اہم بات یہ ہے کہ معاہدے میں گیس کی قیمتوں اور پائپ لائن کی تعمیر کے اخراجات پر کوئی تفصیلات طے نہیں ہوئیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس اعلان کا مقصد زیادہ تر سیاسی ہے تاکہ روس اور چین اپنی قربت اور امریکا کے خلاف مشترکہ موقف کو نمایاں کرسکیں۔
یہ بھی پڑھیے: روسی تیل کی خریداری، ٹرمپ کی جانب سے بھارت پر مزید دباؤ کا اشارہ
ماہرین کے مطابق چین سخت شرائط اور کم قیمتوں پر گیس خریدنے کا خواہاں ہے اور یہی وجہ ہے کہ مذاکرات کئی برسوں سے سست روی کا شکار ہیں۔ اس وقت بیجنگ کے پاس گیس کے کئی متبادل ذرائع موجود ہیں اس لیے روس کو چین کی شرائط پر جھکنا پڑ رہا ہے۔
توانائی کے ماہرین یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ کیا چین کو واقعی ایک اور گیس پائپ لائن کی ضرورت ہے، کیونکہ وہ تیزی سے قابل تجدید توانائی، ہائیڈرو اور نیوکلئیر پاور کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس لیے امکان ہے کہ چین کے لیے گیس ایک ‘اچھی سہولت’ تو ہو، مگر ناگزیر نہیں۔














