جب بھی ملک میں انٹرنیٹ سروس کی بندش ہوتی ہے، بہت سے ایسے کام کرنے کا موقع ملتا ہے جو مہینوں سے ہونے کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ پچھلی بار، ایک موقع (شاید یوم عاشور) پر دو روز انٹرنیٹ اور موبائل سروس بند رہی، اس دوران میں کہانیوں کا ایک ایسا مجموعہ پڑھنے کا موقع ملا جو کم از کم دو، اڑھائی برس سے مطالعے کی میز پر دھرا ہوا تھا۔ اس کی مصنفہ اپنی کہانیوں پر تبصرہ چاہتی تھیں، اکثر یاد دلاتی تھیں۔ تاہم چاہتے ہوئے بھی اس مجموعہ کی باری نہ آسکی تھی۔
کافی فرصت کے ان ایام میں نہ صرف یہ ضخیم مجموعہ پڑھا بلکہ بہت سے دوستوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے، گپ شپ کا موقع بھی ملا، اور دنیا کے بہت سے ایسے پہلو دیکھنے کا موقع ملا جو مصروفیات کے چنگل میں پھنسا انسان دیکھ نہیں سکتا تھا۔ ایسے میں برطانوی شاعر ولیم ڈیوس کی نظم ’Leisure‘ (فرصت) یاد آئی، جس میں وہ کہتا ہے کہ یہ بھی کیا زندگی ہے، اگر فکرمندی سے بھری پڑی ہو۔ اتنا وقت بھی نہ ہو کہ ہم کچھ لمحے ٹھیریں، اِدھر اُدھر نظر اٹھا کر فطرت کی خوبصورتی دیکھ سکیں۔اب زمانہ ایسی چالیں چل رہا ہے کہ ایسی نظموں، باتوں پر سوچنے کا وقت بھی ایسے ہی دنوں میں ملتا ہے جب انٹرنیٹ سروس بند ہو۔
گزشتہ دنوں سابق وزیر اعظم جناب عمران خان کی گرفتاری سے پیدا ہونے والی کشیدہ صورت حال میں، حکومت کو عوامی احتجاج پر قابو پانے کا ایک ہی طریقہ سمجھ آیا کہ انٹرنیٹ سروس بند کردو۔ تاہم یہ طریقہ کارگر ثابت نہ ہوا۔ نئی نسل ایسی بندشوں کا توڑ نکال لیتی ہے،چنانچہ ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک (وی پی این) کے ذریعے، انہوں نے وہ سارے کام کیے جو حکومت روکنا چاہتی تھی۔ خیر! یہ سارے کام نئی نسل ہی کرسکتی ہے، ہم جیسے لوگ ایسے حالات میں کوئی دوسرا مشغلہ ڈھونڈ لیتے ہیں، کسی بھولے ہوئے فرد سے ملاقات کرنا، کسی گرد سے اٹی ہوئی کتاب کی گرد جھاڑ کر ایک، دو نشستوں میں مطالعہ کرنا۔
اس بار ایک اردو ناول ’مٹی آدم کھاتی ہے‘ پڑھنے کا موقع ملا، جسے جہلم کے ادارہ ’بک کارنر‘ نے شائع کیا ہے۔ یہ تین، چار ماہ سے میرے سرہانے پڑا ہوا تھا۔ ناول نگار محمد حمید شاہد منفرد انداز میں کہانیاں لکھتے ہیں۔ اس اعتبار سے اس ناول کا مطالعہ ایک منفرد تجزبہ ثابت ہوا۔ انہوں نے کمال مہارت سے یہ کہانی ایک بڑی حویلی کے ملبے کے اندر سے تلاش کی۔ یہ حویلی آٹھ اکتوبر کے شدید بھونچال کے نتیجے میں تباہ ہونے والے ایک گاؤں کا حصہ تھی۔ پھر یہ کہانی ایک مرحلہ پر مشرقی پاکستان پہنچتی ہے، اور پھر واپس اسی گاؤں میں پلٹ آتی ہے۔
اس منفرد کہانی میں، مغربی پاکستان سے ناراض بنگالی نظر آتے ہیں۔ ان میں ایک بنگالن بھی ہوتی ہے، سانولی رنگت اور لمبے سیاہ بالوں والی منیبہ۔ ناراض وہ بھی تھی مغربی پاکستان والوں سے، اس کے اندر بھی دکھ، درد بھر ے پڑے تھے لیکن وہ سب کچھ بھول کر اپنے محبوب کے ساتھ، بنگلہ دیش چھوڑ کر مغربی پاکستان آنے کو تیار تھی لیکن اس کا محبوب اس کے جذبات کو پہچان ہی نہ سکا۔ اسے بعد میں یاد آیا کہ منیبہ نے اپنے ساتھ پوٹلی میں اپنا سارا زیور کیوں باندھ لیا تھا!
مزید پڑھیں
یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ وہ محبوب اسی گاؤں کا تھا جو آٹھ اکتوبر کے شدید بھونچال میں تباہ ہوا تھا اور جس کے ملبے تلے یہ کہانی برآمد ہوئی۔ کہتے ہیں کہ بنگالن کے جذبات کو نہ پہچاننے، بلکہ اس کی محبت کو ٹھکرا دینے کی وجہ سے محبوب کو بڑی بُری سزا ملی۔ اس کی ویسی ہی بری حالت ہوئی جیسی مغربی پاکستان کی ہوئی۔ میں اس کہانی کا ایک عام سا قاری ہوں، تاہم اس کہانی کے جید قارئین کہتے ہیں کہ یہ مشرقی پاکستان کے پس منظر میں لکھی گئی گنتی کی چند کہانیوں میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہے۔
جی چاہتا ہے کہ میں یہ ساری کہانی اسلام آباد کی شاہراہ دستور کے کنارے بیٹھے تین بوڑھوں کو بھی سناؤں، یہاں بیٹھنے والا ہر بوڑھا اپنے آپ کو ’بابا رحمتا‘ قرار دیتا ہے۔ ہر بوڑھے کی خواہش ہے کہ اس کے منہ سے نکلے ہر حرف پر لوگ جھوم، جھوم اٹھیں، ہر حرف کو مقدس سمجھ کر بوسہ دیں، پھر آنکھوں سے لگائیں اس یقین کے ساتھ کہ اس سے آنکھوں کی روشنی دوچند ہوجائے گی۔ پاکستان قائم ہونے سے آج تلک، ہر ’بابا رحمتا‘ یہی یقین دلانے کی کوشش کرتا رہا کہ اس کے کہے، لکھے حروف سے نورِ بصیرت عام ہوگا لیکن ہمیشہ ان کالے حروف کے بطن سے گھٹاٹوپ تاریکی نے جنم لیا۔
’مٹی آدم کھاتی ہے‘ کا ایک کردار ’خان جی‘ بھی ہوتا ہے۔ شاید یہ وہی خان ہے جسے کوئی نہ کوئی ’بابا رحمتا‘ دوام بخشتا رہا۔ مشرقی پاکستان ٹوٹا تو اس کی بنیادی وجہ بابا رحمتے(جسٹس منیر) کا ناجائز فیصلہ تھا۔اور پھر ’خان‘ نے اپنے آپ کو عقل کل سمجھا اور دس برس تک دو نالی بندوق لے کر ہر طرف گھومتا پھرتا رہا،بنگالیوں کو برے القاب سے پکارتا رہا، ان کا مذاق اڑاتا رہا، ان کی تحقیر کرتا رہا۔ اس کے بعد بھی ایک سے بڑھ کر ایک ’خان‘ آیا۔ اور ہر ’بابا رحمتے‘ ہر ’خان‘ کا عقیدت مند ہی ثابت ہوا، اسے ناجائز جواز فراہم کرتا رہا، اس کا سہولت کار بنتا رہا۔
آج بھی ’بابا رحمتے‘ کی ’خان جی‘ پر نظر پڑتی ہے تو باچھیں کھل جاتی ہیں، اور پھر وہ لوگوں سے کہتا ہے کہ اس کے فیصلوں کو سیاسی تناظر میں نہ دیکھنا۔ وہ لوگوں کو یقین دلاتا ہے کہ وہ انصاف کر رہا ہے، اور پھر اسی وقت اس کے اندر سے ایک آواز گونجتی ہے کہ یہ انصاف نہیں۔
’مٹی آدم کھاتی ہے‘ کی بنگالن اپنا سب کچھ چھوڑ کر، اپنی جمع پونجی اور زیور پوٹلی میں باندھ کر محبت کے سارے لازمی تقاضے پورے کرنے چل پڑی تھی، ویسے ہی بنگالی پاکستان کی محبت میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر مغربی پاکستان سے وفا کے سارے تقاضے پورے کر رہے تھے لیکن دھتکار دیے گئے۔ یہ ناانصافی کی انتہا تھی۔
ناانصافی کسی ایک فرد کے ساتھ ہو یا ایک گروہ کے ساتھ یا پھر ایک قوم کے ساتھ، اس کا انجام نہایت بھیانک سامنے آتا ہے۔ بہت مشہور ہے کہ انصاف ہونا ہی کافی نہیں، انصاف ہوتا ہوا نظر آنا بھی ضروری ہے۔ بصورت دیگر تقدس کی چادریں تار تار ہو جاتی ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں ایسا واضح طور پر ہوا۔ پہلے لوگ خاموشی سے ’مقدس گائیوں‘ کی بھینٹ چڑھ جاتے تھے لیکن اب وہ ’مقدس گائیوں‘ کو قربان کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
فریڈرک ڈگلس، ایک سیاہ فام امریکی اصلاح پسند، نے کہا تھا:’جہاں انصاف دینے سے انکار کردیا جائے، جہاں غربت مسلط کردی جائے، جہاں جہالت کو غلبہ حاصل ہو، جہاں کسی ایک طبقے کو احساس دلایا جائے کہ معاشرہ دراصل ایک ایسی منظم سازش کا عنوان ہے جس کے تحت اس پر ظلم ہوتا ہے، اسے لوٹ مار کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اسے نیچا دکھایا جاتا ہے، وہاں لوگ محفوظ رہ سکتے ہیں نہ املاک‘۔