برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں ہزاروں افراد نے اسلام اور مہاجرت مخالف کارکن ٹومی رابنسن کی اپیل پر احتجاجی مارچ کیا، جبکہ دوسری جانب نسل پرستی کے مخالفین نے بھی جوابی مظاہرہ کیا۔
مظاہرین انگلینڈ اور برطانیہ کے جھنڈے اٹھائے ہوئے تھے، جبکہ کچھ نے امریکی اور اسرائیلی پرچم بھی تھامے ہوئے تھے۔ شرکا نے وزیراعظم کیئر اسٹارمر کے خلاف نعرے لگائے اور بعض پلے کارڈز پر لکھا تھا: ’انہیں واپس بھیجو‘۔
یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کی نئی ویزا پالیسی، ویزے سے مستثنیٰ ممالک کے مسافر بھی متاثر
ٹومی رابنسن نے اس مارچ کو ’یونائیٹ دی کنگڈم‘ کا نام دیا اور اسے آزادی اظہار کا جشن قرار دیا۔ اس موقع پر امریکی قدامت پسند کارکن چارلی کرک کی یاد میں بھی خاموشی اختیار کی گئی، جنہیں چند روز قبل قتل کیا گیا تھا۔
رابنسن جن کا اصل نام اسٹیفن یاکسلی لینن ہے، خود کو ریاستی بدعنوانیوں کو بے نقاب کرنے والا صحافی قرار دیتے ہیں اور امریکی ارب پتی ایلون مسک ان کے نمایاں حامیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ تاہم برطانیہ کی بڑی مہاجر مخالف جماعت ریفارم یو کے نے ان سے فاصلہ رکھا ہے کیونکہ ان پر متعدد فوجداری مقدمات درج ہو چکے ہیں۔
مارچ میں شریک ایک خاتون سینڈرا مچل نے کہاکہ ہم اپنا ملک واپس چاہتے ہیں، ہمیں آزادیِ اظہار دوبارہ چاہیے۔ غیر قانونی مہاجرت کو روکنا ہوگا۔
لندن میٹروپولیٹن پولیس کے مطابق ہفتے کے روز شہر بھر میں 1600 سے زیادہ اہلکار تعینات کیے گئے، جن میں 500 افسران دیگر شہروں سے طلب کیے گئے تھے۔ پولیس کو بیک وقت ان مظاہروں کے ساتھ ہائی پروفائل فٹبال میچز اور کنسرٹس کی سیکیورٹی بھی سنبھالنی پڑی۔
کمانڈر کلیئر ہینز نے کہاکہ پولیس ان مظاہروں کو کسی بھی دوسرے احتجاج کی طرح دیکھتی ہے اور لوگوں کے قانونی حقوق کا تحفظ اس کی ذمہ داری ہے، تاہم کسی بھی غیر قانونی عمل پر سختی سے کارروائی کی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ پچھلے مظاہروں میں بعض شرکا کی جانب سے اسلام مخالف نعروں اور قابلِ اعتراض رویے کی مثالیں موجود ہیں، لیکن لندن کے شہریوں کو گھروں تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔
گزشتہ ہفتے ’فلسطین ایکشن‘ پر عائد پابندی کے خلاف احتجاج کے دوران تقریباً 900 مظاہرین کو گرفتار کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: غیرقانونی طور پر برطانیہ پہنچنے والوں کے لیے شہریت کا حصول ممکن نہیں رہا
برطانیہ میں اس وقت مہاجرت سب سے بڑا سیاسی مسئلہ بن چکا ہے، جس نے معیشت کی سست روی جیسے دیگر معاملات کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ رواں سال اب تک 28 ہزار سے زیادہ افراد چھوٹی کشتیوں کے ذریعے برطانیہ پہنچ چکے ہیں۔
دارالحکومت سمیت مختلف شہروں میں سرخ و سفید انگلش جھنڈے لہرائے جا رہے ہیں اور بعض مقامات پر انہیں سڑکوں پر پینٹ بھی کیا گیا ہے۔ حامیوں کے مطابق یہ ’قومی فخر‘ کی مہم ہے، تاہم نسل پرستی کے مخالف کارکن اسے غیر ملکیوں کے لیے نفرت کا پیغام قرار دیتے ہیں۔