لندن میں مہاجرین مخالف مارچ اور جوابی ریلی، ہزاروں افراد کی شرکت

ہفتہ 13 ستمبر 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں ہزاروں افراد نے اسلام اور مہاجرت مخالف کارکن ٹومی رابنسن کی اپیل پر احتجاجی مارچ کیا، جبکہ دوسری جانب نسل پرستی کے مخالفین نے بھی جوابی مظاہرہ کیا۔

مظاہرین انگلینڈ اور برطانیہ کے جھنڈے اٹھائے ہوئے تھے، جبکہ کچھ نے امریکی اور اسرائیلی پرچم بھی تھامے ہوئے تھے۔ شرکا نے وزیراعظم کیئر اسٹارمر کے خلاف نعرے لگائے اور بعض پلے کارڈز پر لکھا تھا: ’انہیں واپس بھیجو‘۔

یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کی نئی ویزا پالیسی، ویزے سے مستثنیٰ ممالک کے مسافر بھی متاثر

ٹومی رابنسن نے اس مارچ کو ’یونائیٹ دی کنگڈم‘ کا نام دیا اور اسے آزادی اظہار کا جشن قرار دیا۔ اس موقع پر امریکی قدامت پسند کارکن چارلی کرک کی یاد میں بھی خاموشی اختیار کی گئی، جنہیں چند روز قبل قتل کیا گیا تھا۔

رابنسن جن کا اصل نام اسٹیفن یاکسلی لینن ہے، خود کو ریاستی بدعنوانیوں کو بے نقاب کرنے والا صحافی قرار دیتے ہیں اور امریکی ارب پتی ایلون مسک ان کے نمایاں حامیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ تاہم برطانیہ کی بڑی مہاجر مخالف جماعت ریفارم یو کے نے ان سے فاصلہ رکھا ہے کیونکہ ان پر متعدد فوجداری مقدمات درج ہو چکے ہیں۔

مارچ میں شریک ایک خاتون سینڈرا مچل نے کہاکہ ہم اپنا ملک واپس چاہتے ہیں، ہمیں آزادیِ اظہار دوبارہ چاہیے۔ غیر قانونی مہاجرت کو روکنا ہوگا۔

لندن میٹروپولیٹن پولیس کے مطابق ہفتے کے روز شہر بھر میں 1600 سے زیادہ اہلکار تعینات کیے گئے، جن میں 500 افسران دیگر شہروں سے طلب کیے گئے تھے۔ پولیس کو بیک وقت ان مظاہروں کے ساتھ ہائی پروفائل فٹبال میچز اور کنسرٹس کی سیکیورٹی بھی سنبھالنی پڑی۔

کمانڈر کلیئر ہینز نے کہاکہ پولیس ان مظاہروں کو کسی بھی دوسرے احتجاج کی طرح دیکھتی ہے اور لوگوں کے قانونی حقوق کا تحفظ اس کی ذمہ داری ہے، تاہم کسی بھی غیر قانونی عمل پر سختی سے کارروائی کی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ پچھلے مظاہروں میں بعض شرکا کی جانب سے اسلام مخالف نعروں اور قابلِ اعتراض رویے کی مثالیں موجود ہیں، لیکن لندن کے شہریوں کو گھروں تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔

گزشتہ ہفتے ’فلسطین ایکشن‘ پر عائد پابندی کے خلاف احتجاج کے دوران تقریباً 900 مظاہرین کو گرفتار کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: غیرقانونی طور پر برطانیہ پہنچنے والوں کے لیے شہریت کا حصول ممکن نہیں رہا

برطانیہ میں اس وقت مہاجرت سب سے بڑا سیاسی مسئلہ بن چکا ہے، جس نے معیشت کی سست روی جیسے دیگر معاملات کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ رواں سال اب تک 28 ہزار سے زیادہ افراد چھوٹی کشتیوں کے ذریعے برطانیہ پہنچ چکے ہیں۔

دارالحکومت سمیت مختلف شہروں میں سرخ و سفید انگلش جھنڈے لہرائے جا رہے ہیں اور بعض مقامات پر انہیں سڑکوں پر پینٹ بھی کیا گیا ہے۔ حامیوں کے مطابق یہ ’قومی فخر‘ کی مہم ہے، تاہم نسل پرستی کے مخالف کارکن اسے غیر ملکیوں کے لیے نفرت کا پیغام قرار دیتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

ایشیا کپ میں شاندار کارکردگی: شاہین آفریدی نے بابر اعظم کو پیچھے چھوڑ دیا

بین الاقوامی ذرائع نے ٹرمپ اور شہباز کی ملاقات کو کیسے کور کیا؟

وزیر دفاع خواجہ آصف کا ٹوئٹ: 2025 کو پاکستان کی بڑی کامیابیوں کا سال قرار

’میڈن اِن پاکستان‘: 100 پاکستانی کمپنیوں نے بنگلہ دیشی مارکیٹ میں قدم جمالیے

پولیو سے متاثرہ شہاب الدین کی تیار کردہ الیکٹرک شٹلز چینی سواریوں سے 3 گنا سستی

ویڈیو

’میڈن اِن پاکستان‘: 100 پاکستانی کمپنیوں نے بنگلہ دیشی مارکیٹ میں قدم جمالیے

پولیو سے متاثرہ شہاب الدین کی تیار کردہ الیکٹرک شٹلز چینی سواریوں سے 3 گنا سستی

وائٹ ہاؤس: وزیراعظم اور امریکی صدر کے درمیان اہم ملاقات ختم، فیلڈ مارشل عاصم منیر بھی شریک تھے

کالم / تجزیہ

بگرام کا ٹرکٖ

مریم نواز یا علی امین گنڈا پور

پاکستان کی بڑی آبادی کو چھوٹی سوچ کے ساتھ ترقی نہیں دی جا سکتی