عظیم کامیڈین ’لہری‘ جو آج بھی دلوں میں زندہ ہیں

ہفتہ 13 ستمبر 2025
author image

سفیان خان

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ہنسی انسان کے غموں کا سب سے سچا علاج ہے۔ وہ آواز جو دل کے اندھیروں کو اجالا دے، جو تھکے ہوئے وجود کو پل بھر میں زندگی کا احساس دلا دے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ خوشبو، یہ روشنی اور یہ جادو جس شخصیت کے نام رہا، وہ ہیں لہری، یعنی سفیر اللہ صدیقی۔

آڈیشن کا لمحہ: خاموشی کا طوفان

کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ اپنا سب سے قیمتی ہنر پیش کریں، اور جواب میں صرف سناٹا ملے؟ یہی ہوا لہری کے ساتھ، ایک نوجوان، خوابوں اور امیدوں سے بھرا ہوا، پہلی بار فلمی آڈیشن کے لیے کیمروں کے سامنے آیا۔ اس نے اپنے مشہور لطیفے ’مریضِ عشق‘ سے آغاز کیا۔ مگر ہوا یہ کہ پورا آڈیٹوریم خاموشی میں ڈوبا رہا۔ نہ کوئی مسکراہٹ، نہ کوئی قہقہہ۔ ہدایتکار اور کیمرا مین کے چہرے سپاٹ تھے۔ یہ وہ لمحہ تھا جو کسی بھی فنکار کو توڑ سکتا ہے۔ لیکن شاید اسی لمحے تقدیر نے فیصلہ کیا کہ یہ فنکار دنیا کو صرف قہقہے ہی نہیں، بلکہ صبر، استقامت اور حوصلے کا سبق بھی دے گا۔

اسٹیج کا شہزادہ

پچاس کی دہائی کے کراچی میں جب تھیٹر اپنے عروج پر تھا، ایک نام ہر ڈرامے کا مرکز سمجھا جاتا تھا، اور وہ تھا لہری۔ وہ ایک جملے سے پورے ہال کو ہنسا دیتے۔ ان کے مکالموں میں کبھی شور شرابہ نہیں ہوتا، کبھی پھکڑ پن نہیں ہوتا۔ بلکہ ان کی سادگی ہی ان کا جادو تھی۔ ہر شو کے بدلے ملنے والے 30 روپے ان کے لیے بہت تھے۔ مگر شادی کے بعد ذمہ داریوں نے دروازے کھٹکھٹائے۔ وہ سمجھ گئے کہ وقت نے انہیں ایک بڑی دنیا کی طرف دھکیل دیا ہے۔

فلمی دروازے کی دستک

آرٹسٹ ابو شاد نے انہیں فلمی دنیا کا راستہ دکھایا۔ فلم کے ہدایتکار او پی دتہ بھارت سے آئے تھے اور ہیروئن کا نام شیلا رمانی تھا۔ یہ موقع کسی خواب سے کم نہ تھا۔ لہری نے ابتدا میں انکار کیا، لیکن ابو شاد کی ضد کے آگے جھکنا پڑا۔ یوں وہ فلم کی دہلیز پر پہنچ گئے۔

ڈائریکٹر کا سوال، برجستہ جواب

اسٹوڈیو کا پہلا دن، دل میں ہزاروں امیدیں۔ مگر ڈائریکٹر کا پہلا سوال گویا بجلی بن کر گرا۔

’کیا بیچتے ہو؟‘

لہری نے لمحہ ضائع کیے بغیر کہا:

’میں کچھ نہیں بیچتا، عجیب لگے گا کہ آپ کھانا کھا رہے ہوں اور میں کچھ بیچوں۔‘

یہ جملہ قہقہہ مانگ رہا تھا، مگر کمرے میں اب بھی خاموشی چھائی رہی۔ لہری سمجھ گئے کہ شاید یہ سفر یہیں ختم ہو جائے گا۔

قسمت کی مسکراہٹ

لیکن قدرت کا فیصلہ کچھ اور تھا۔ تین دن بعد ایک شخص خوشخبری لے کر آیا لہری کا انتخاب ہو چکا تھا۔ انہیں 3 ہزار روپے کی پیشکش ملی۔ یہ رقم اسٹیج کے برسوں کی کمائی سے کہیں بڑھ کر تھی۔ لہری نے اسٹیج کو الوداع کہا اور فلمی دنیا کو اپنا نیا گھر بنا لیا۔

انوکھی: پہلا امتحان

پہلی فلم کا نام تھا ’انوکھی‘ اداکارہ شیلا رمانی اس فلم میں دہرے کردار نبھا رہی تھیں۔ فلم ناکام رہی، مگر لہری کے مختصر کردار نے سب کو حیران کر دیا۔ ان کی بے ساختہ اداکاری نے یہ ثابت کردیا کہ وہ پردے پر بھی وہی جادو بکھیر سکتے ہیں جو اسٹیج پر کرتے تھے۔

کامیابی کی سنہری راہیں

یہ فلم لہری کی اصل کامیابی کی شروعات تھی۔ ’رات کی راہی‘ اس کے بعد کی فلم تھی۔ ان کی شوخی، ان کی معصوم جملہ بازی، اور ان کی شائستگی نے انہیں ہر دل عزیز بنا دیا۔ پھر ایک ایسا سفر شروع ہوا جو پاکستان کی فلمی تاریخ کا حصہ بن گیا۔ 200 سے زیادہ فلمیں، ہر کردار میں نیا رنگ، اور کامیڈی کی ایک ایسی دنیا جس میں کبھی بازاری پن نہ آیا۔

لہری کو 12 مرتبہ نگار ایوارڈ سے نوازا گیا، یہ ایک ایسا ریکارڈ جو آج بھی ان کی عظمت کی گواہی دیتا ہے۔ ’دامن‘، ’پیغام‘، ’کنیز‘، ’صاعقہ‘، ’لیلیٰ مجنوں‘، ’انجمن‘، ’دل لگی‘ اور ’نیا انداز‘ جیسے شاہکار انہی کی وجہ سے چمک اٹھے۔

بیماری کا سایہ

لیکن زندگی ہمیشہ قہقہوں کی طرح روشن نہیں رہتی۔ 1983 میں سری لنکا میں شوٹنگ کے دوران پہلا فالج کا حملہ ہوا۔ پھر بیماریوں نے گھیر لیا، جسم کمزور ہو گیا مگر یادوں اور فن کی طاقت کبھی مدھم نہ ہوئی۔ اور پھر 13 ستمبر 2012 کو وہ خاموشی سے رخصت ہو گئے، مگر اپنے پیچھے مسکراہٹوں کا خزانہ چھوڑ گئے۔ ان کی معصوم مسکراہٹیں، ان کے دلنشین لطیفے آج بھی زندہ ہیں۔ لہری ہمیں یہ سبق دے گئے کہ فن کا مقصد صرف ہنسانا نہیں بلکہ تہذیب کو جِلا دینا ہے۔ قہقہہ وہی ہے جو دل کو سکون دے اور دکھ کو بھلا دے۔ ان کی زندگی ایک چراغ ہے جو یہ سکھاتی ہے کہ اگر نیت صاف ہو اور جذبہ سچا ہو تو سناٹا بھی قہقہوں میں بدل سکتا ہے۔ وہ چلے گئے مگر اپنے پیچھے ہنسی کی ایسی وراثت چھوڑ گئے جو وقت کی دھول سے کبھی ماند نہیں پڑے گی۔ وہ ہمارے دلوں کے ہمیشہ کے مکین ہیں، ایک ایسی یاد جو جتنا پرانی ہو اتنی ہی حسین لگتی ہے۔ لہری صرف ایک فنکار نہیں تھے، وہ پاکستان کی ہنسی کی تاریخ ہیں۔ ان کے قہقہے آج بھی دلوں کو مسکراتے ہیں اور رہتی دنیا تک مسکراتے رہیں گے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سفیان خان کئی اخبارات اور ٹی وی چینلز سے وابستہ رہے ہیں۔ کئی برسوں سے مختلف پلیٹ فارمز پر باقاعدگی سے بلاگز بھی لکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

پی ٹی سی ایل گروپ اور مرکنٹائل نے پاکستان میں آئی فون 17 کی لانچ کا اعلان کردیا

ایشیا کپ میں شاندار کارکردگی: شاہین آفریدی نے بابر اعظم کو پیچھے چھوڑ دیا

بین الاقوامی ذرائع نے ٹرمپ اور شہباز کی ملاقات کو کیسے کور کیا؟

وزیر دفاع خواجہ آصف کا ٹوئٹ: 2025 کو پاکستان کی بڑی کامیابیوں کا سال قرار

’میڈن اِن پاکستان‘: 100 پاکستانی کمپنیوں نے بنگلہ دیشی مارکیٹ میں قدم جمالیے

ویڈیو

’میڈن اِن پاکستان‘: 100 پاکستانی کمپنیوں نے بنگلہ دیشی مارکیٹ میں قدم جمالیے

پولیو سے متاثرہ شہاب الدین کی تیار کردہ الیکٹرک شٹلز چینی سواریوں سے 3 گنا سستی

وائٹ ہاؤس: وزیراعظم اور امریکی صدر کے درمیان اہم ملاقات ختم، فیلڈ مارشل عاصم منیر بھی شریک تھے

کالم / تجزیہ

بگرام کا ٹرکٖ

مریم نواز یا علی امین گنڈا پور

پاکستان کی بڑی آبادی کو چھوٹی سوچ کے ساتھ ترقی نہیں دی جا سکتی