نیپال میں وزیراعظم کے استعفے اور پارلیمان کو نذرِ آتش کرنے والے حالیہ احتجاجی مظاہروں میں ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا نے اہم کردار ادا کیا۔
ڈیجیٹل میدانِ جنگ
نوجوان مظاہرین، جنہیں ’جنریشن زیڈ‘ کہا جا رہا ہے، نے احتجاج سے قبل وی پی این سروسز استعمال کرنا شروع کر دی تھیں تاکہ بلاک شدہ سوشل میڈیا تک رسائی حاصل ہو سکے۔
BREAKING: 🇳🇵 Jack Dorsey’s decentralized app Bitchat surges in Nepal amid protests, bypassing social media bans to become the digital weapon for free expression and organization against government censorship. pic.twitter.com/Om6XGJ9wtF
— WhaleInsight 🐋⚡ (@whale_insight) September 12, 2025
اس دوران سابق ٹوئٹر سربراہ جیک ڈورسی کی ایپ Bitchat بھی تیزی سے مقبول ہوئی جو بغیر انٹرنیٹ کے میسیجنگ کی سہولت دیتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:نیپال کی پہلی خاتون وزیراعظم کا حلف، نوجوانوں کی بغاوت کے بعد سیاسی نقشہ بدل گیا
اس کے علاوہ امریکی چیٹ ایپ Discord پر 1.45 لاکھ سے زائد ممبرز نے اگلے سیاسی لائحہ عمل پر بحث کی، حتیٰ کہ عبوری قیادت کے لیے نام بھی تجویز کیے گئے۔
’ NepoKids ‘ مہم
سوشل میڈیا پر #NepoKids ٹرینڈ نے احتجاج کو نئی جِلا بخشی۔ عام شہریوں نے سیاسی رہنماؤں کے بچوں کی لگژری لائف اسٹائل کی تصاویر کو اپنی غربت اور مشکلات کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ ’ٹیکس کا پیسہ کہاں جا رہا ہے؟‘ یہ نعرہ دیہی علاقوں تک پہنچ گیا اور عوامی غصہ بڑھاتا گیا۔
حکومت کی غلطی
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت نے سوشل میڈیا کی طاقت کو کم سمجھا۔ نیپال نے حال ہی میں 26 پلیٹ فارمز پر پابندی لگائی تھی، جسے نوجوانوں نے اظہارِ رائے کی آزادی پر حملہ تصور کیا۔
سوئس کمپنی Proton VPN کے مطابق چند دنوں میں نیپال سے سائن اپس میں 6000 فیصد اضافہ ہوا۔
ڈیجیٹل رائٹس کارکنوں کا کہنا ہے کہ حکومت سوشل میڈیا کے اثرات کو سنجیدگی سے نہیں لے سکی، جبکہ مظاہرین نے یہی پلیٹ فارمز اپنی سب سے بڑی طاقت میں بدل دیے۔