امریکی خلائی ادارے ناسا نے چینی شہریوں کو اپنے ریسرچ پروگرامز، سہولیات اور اندرونی نیٹ ورکس تک رسائی سے روک دیا ہے۔
یہ اقدام امریکی خلائی برتری کے تحفظ اور چین کے ساتھ بڑھتی ہوئی مسابقت کے تناظر میں کیا گیا ہے۔
NASA has maintained its longstanding policy of barring Chinese nationals from working on its space programs. Why? Because apparently, even outer space isn’t far enough to keep your intellectual property safe from the Chinese Communist Party.
Know more at 👇… pic.twitter.com/21U5k4GDDd
— Mainlandpost (@mainlandpostt) September 11, 2025
امریکی اخبار ایپک ٹائمز کے مطابق، 5 ستمبر کو ان چینی شہریوں کو مطلع کیا گیا جو ٹھیکیداروں یا محققین کے طور پر ناسا کے مختلف منصوبوں میں شامل تھے۔
انہیں ڈیجیٹل سسٹمز سے لاگ آؤٹ کر دیا گیا اور ان کی ذاتی و آن لائن میٹنگز میں شرکت بھی روک دی گئی۔
یہ بھی پڑھیں:پاکستان اور چین کا مشترکہ اسپیس سائنس سینٹر قائم کرنے کا فیصلہ
ناسا کی پریس سیکریٹری بیتھنی اسٹیونز نے تصدیق کی کہ ادارے نے ’اندرونی اقدامات‘ کیے ہیں تاکہ فزیکل اور سائبر سکیورٹی کے خطرات کو کم کیا جا سکے۔ ان کے بقول یہ اقدامات حساس آپریشنز کے تحفظ کے لیے ناگزیر تھے۔
یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حالیہ برسوں میں چین سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد کے خلاف امریکی ٹیکنالوجی شعبے میں جاسوسی کے مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
تاہم یہ واضح نہیں ہو سکا کہ آیا ناسا کے اس اقدام کے پیچھے کوئی مخصوص سیکیورٹی خلاف ورزی موجود تھی۔
ادارے کے قائم مقام ایڈمنسٹریٹر شان ڈفی نے ایک بیان میں کہا کہ امریکا کو ’دوسری خلائی دوڑ‘ میں قیادت کرنی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:کارگو اسپیس کرافٹ تیانژو-9 چینی خلائی اسٹیشن تک پہنچنے میں کامیاب
ان کے مطابق چین کا چاند پر اترنے کا منصوبہ دفاعی مقاصد کے تحت ہے، نہ کہ پرامن سائنسی تحقیق کے لیے۔
امریکی دفاعی حکام بھی اس حوالے سے خدشات ظاہر کر چکے ہیں۔ اسپیس فورس کے سربراہ جنرل بی۔ چانس سالٹزمین نے کہا کہ بیجنگ کا خلائی پروگرام براہِ راست اس کی عسکری حکمتِ عملی سے جڑا ہوا ہے۔
حال ہی میں چین نے لانگ مارچ-10 راکٹ کا کامیاب تجربہ کیا ہے اور اس دہائی کے اختتام تک اپنے خلا بازوں کو چاند پر اتارنے کا ہدف رکھا ہے۔