تحریک انصاف کے دور حکومت میں حکمران جماعت کے سب سے بڑے مخالف جمعیت علماء اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن دکھائی دیے وجہ صاف ظاہر تھی کہ مولانا کی جانب سے تحریک انصاف کی حکومت کو ماننے سے صاف انکار تھا جبکہ خود مولانا اسمبلی کے رکن بھی نہیں تھے۔
پاکستان کی سیاست اور دھرنوں کا گہرا ساتھ ہے، اب تو رواج سا بن چکا ہے کہ ووٹ سے زیادہ دھرنوں کو اہمیت دی جاتی ہے۔ یوں تو یہ تاریخ بہت پرانی ہے لیکن کل ہی کی بات لگتی ہے کہ عمران خان مسلم لیگ کے دور حکومت میں ملکی تاریخ کا سب سے بڑا دھرنا دینے میں کامیاب ہوئے، اور بدقسمتی سے اس وقت بھی ملک نازک دور سے دوچار تھا اور آج بھی نازک دور سے گزر رہا ہے۔ دھرنوں کی سیاست سے پس پردہ کیا ملا وہ تو آج تک سامنے نہیں آسکا لیکن بظاہر ان دھرنوں سے کچھ بھی ملتا دکھائی نہیں دیا۔
بطور پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمن نے گزشتہ روز پی ڈی ایم کے اجلاس کے بعد قوم کو بتایا کہ فیصلہ کیا ہے کہ اب سپریم کورٹ کے رویے کے خلاف احتجاج ہوگا، پوری قوم سے اپیل ہے پیر کے دن اسلام آباد کی جانب روانہ ہو اور دھرنے میں شدید احتجاج کیا جائے۔ اگر کسی نے ہمیں ٹیڑھی آنکھ سے دیکھا تو انہیں ڈنڈوں، گھونسوں اور تھپڑوں سے جواب دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ سب کچھ عمران خان کے لیے داؤ پر لگا دیا گیا، اس نے جو کیا وہ بغاوت اور غداری کے زمرے میں آتا ہے، ہمیں آئین اور جمہوریت کے تحفظ کے لیے کردار ادا کرنا ہوگا۔ یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے ملک کے اکثر صوبوں میں دفعہ 144 نافذ ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف جمعیت علمائے اسلام کا احتجاجی مارچ
27 اکتوبر 2019 کو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف جمعیت علمائے اسلام کے احتجاجی مارچ کا کراچی سےآغاز ہوا۔ مارچ سے قبل ان کا موٴقف تھا کہ ‘وزیرِاعظم عمران خان کی حکومت ناکام ہو چکی ہے، اسے مستعفی ہو جانا چاہیے۔’ اور اسی لیے وہ ’آزادی مارچ‘ لے کر اسلام آباد جا رہے ہیں۔
جمیعتِ علما اسلام کے کارکنان اور حامی 27 تاریخ کو ملک کے مختلف شہروں سے ریلیوں کی صورت میں نکلے اور تین روز بعد 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں داخل ہوئے، اسلام آباد پہنچ کر ایک جلسے میں اعلان کیا گیا کہ اسلام آباد سے دھرنا ختم کرکے ملک بھر کی اہم شاہراہوں پر احتجاج جاری رہے گا۔
مولانا نے تحریک انصاف حکومت کا پیچھا نا چھوڑا اور 7 ستمبر 2020 کو پشاور میں ختم نبوت کانفرس میں طاقت کا مظاہرہ کیا جس کے بعد 29 اکتوبر کو کراچی اور 29 نومبر کو لاڑکانہ میں ملین مارچ کیا۔ کوئٹہ، لاہور اور اسلام آباد میں بھی بڑے جلسے عمران خان حکومت مخالف تحریک میں تیزی کے اشارے تھے۔
آزادی مارچ کے ثمرات حاصل کرنے کے قریب پہنچ گئے، ان شاء اللہ یہ جنگ جاری رہے گی
29 مارچ 2022 کو متحدہ اپوزیشن کی بیٹھک کے بعد بطور پی ڈی ایم سربراہ مولانا نے بیان دیا کہ آزادی مارچ کے ثمرات حاصل کرنے کے قریب پہنچ گئے ہیں اور ان شاء اللہ یہ جنگ جاری رہے گی۔ ویسے تو سیاسی محاذ پر پی ڈی ایم کی یہ بہت بڑی کامیابی تھی جب آزادی مارچ سے شروع ہونے والی تحریک عمران خان کو وزارت سے ہٹانے میں کامیاب ہوئی لیکن دوسری جانب عمران خان بھی ہار ماننے والے نہیں۔
پی ڈی ایم حکومت کو عمران خان کو گرفتار کرنے کے لیے سر توڑ کوششوں کے بعد کامیابی ملی تو سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ اس پر پی ڈی ایم نے عدالت عظمیٰ کے خلاف اسلام آباد میں دھرنا دینے کا اعلان کر دیا جس میں ملک بھر سے شہریوں کو اسلام آباد میں جمع ہونے کا پیغام دیا جا چکا ہے۔