پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی منگل کے روز گرفتاری کے بعد سیاسی کشیدگی اور بحران میں جہاں بے پناہ اضافہ ہوا وہیں اس نے پاکستان کی معیشت کو بھی متاثر کیا ہے۔
عمران خان کی گرفتاری کے بعد جہاں ایک طرف مظاہرین کی طرف سے جلاؤ گھیراؤ جاری تھا تو دوسری طرف سٹاک مارکیٹ، ڈالر اور سونے کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ نے پاکستان کی معیشت کو بحرانی کیفیت سے دوچار کیا ہوا تھا۔
اس کےساتھ ساتھ آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کے ساتھ معاہدے سے متعلق بیان نے معاشی صورتحال کو مزید بے یقینی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق آئی ایم ایف نے پاکستان سے مزید 8ارب ڈالرز کی فنانسنگ کے بندوبست کا کہا ہے۔ دوسری طرف آئی ایم ایف نے ان اخباری اطلاعات کی تردید جاری کی ہے۔
حالیہ سیاسی کشیدگی سے پاکستان کو کتنا معاشی نقصان ہو رہا ہے؟
ایک ایسے وقت میں جب پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران میں سے گزر رہا ہے، روز بروز گہرا ہوتا سیاسی بحران ملک کی معیشت کے لیے زہر قاتل ثابت ہو رہا ہے۔ معاشی ماہرین سمجھتے ہیں کہ اگر پاکستان کو اپنی معیشت کی بحالی درکار ہے تو اسے سب سے پہلے سیاسی استحکام لانا ہوگا۔
SDPI کے جوائنٹ ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر وقار احمد کے کہتے ہیں ’میرے اندازے کے مطابق اس وقت ملک میں جو سیاسی عدم استحکام جاری ہے اس کا پاکستانی معیشت کو روزانہ کی بنیاد پر 130ارب روپے کا نقصان ہوا ہے‘۔
جس طرح اس سارے بحران میں جلاؤ گھیراؤ ہوا ہے اس نے معیشت کے تمام سیکٹرز کو متاثر کیا ہے۔ اس نے اس سارے نقصان میں حصہ ڈالا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق عمران خان کی گرفتاری کے بعد انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے صرف ٹیلی کام سیکٹر کو 820 ملین روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جب کہ لاکھوں کی تعداد میں وہ لوگ بھی متاثر ہوئے جن کے کاروبار کا انحصار انٹرنیٹ پر تھا۔
ماہر معیشت ڈاکٹر خاقان نجیب، ڈاکٹر وقار کی اس بات سے متفق ہیں کہ اس وقت کے سیاسی حالات پاکستان کی معیشت کے مزید بگاڑ میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔
ان کے مطابق ’سیاسی عدم استحکام ہمیشہ سے پاکستان میں رہا ہے لیکن اس وقت جو ایک سیاسی غیر یقینی کی صورتحال ہے وہ ماضی میں کبھی نہیں رہی اور یہ معیشت کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ انویسٹرز اور ایکسپورٹرز کا اعتماد اس وقت بہت متزلزل ہے اور آنے والے دنوں میں اس بحران کے بڑھنے کے خدشات کی وجہ سے وہ گومگو کی کیفیت میں ہیں اور اگر یہ سیاسی غیر یقینی اسی طرح جاری رہی تو پاکستان کے معاشی بحران میں اضافہ ہو گا‘۔
ایک طرف جہاں پاکستان سیاسی عدم استحکام معیشت کی جڑوں میں بیٹھ رہا ہے وہیں دوسری طرف آئی ایم ایف سے معاہدے کے 9th ریویو میں کامیابی کے امکانات بھی مزید معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔
جہاں آئی ایم ایف نے معاہدے کی بحالی کو پہلے اگلے سال کے مالی بجٹ کی منظوری سے مشروط کیا تھا وہیں اب سے نے نئی شرط میں پاکستان سے مزید 8 ارب ڈالرز کی فنانسنگ کا بندوبست کرنے کا کہہ دیا ہے۔
آئی ایم ایف کی اب نئی شرط کیا ہے؟
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدے میں 1.1 بلین ڈالرز کی قسط کو لیکر پچھلے سال نومبر سے تعطل ہے اور اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں آئی ایم ایف کی ترجمان Julie Kozak کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کو 9th ریویو کی کامیابی کے لیے مزید فنانسنگ کا بندوبست کرنا ہوگا۔ پاکستان نے اس سال مارچ میں بھی آئی ایم ایف کی شرط کو پورا کرنے کے لیے متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور چائنا سے فنانسنگ کے حوالے سے pledges حاصل کی تھیں۔ اور حکومت کے مطابق یہ ممالک جلد ہی اپنی pledges پوری بھی کر دیں گے۔یاد رہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان 6.5 بلین ڈالرز کا بیل آؤٹ پیکج 2019 میں شروع ہوا تھا۔
ڈاکٹر خاقان نجیب سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور آئی ایم ایف ڈالر فنانسنگ کی ضروریات پر ابھی متفق نہیں۔ ڈاکٹر نجیب کے مطابق ’اس وقت پاکستان کی معیشت کا پہیہ رُکا ہوا ہے اور شارٹ ٹرم میں اس کو چلانے کا ایک ایسا طریقہ جس سے عام عوام پر بھی بوجھ کم پڑتا وہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی بحالی تھا، جو کہ ابھی تک بحال نہیں ہو سکا۔ پاکستان کی ڈالر فنانسنگ کی ضروریات کو لیکر ابھی تک آئی ایم ایف اور پاکستان شاید ایک پیج پر نہیں آرہے۔ لیکن پھر بھی مجھے امید ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کو اس معاہدے کی بحالی پر راضی کر لے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کو بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں اس وقت مہنگائی اور بیروزگاری بڑھ رہی ہے اور اگر یہ معاہدہ بحال ہوتا ہے تو پاکستان اس پر قابو پانے میں کسی حد تک کامیاب ہو سکتا ہے۔ اور ہو سکتا ہے کہ روپے پر بھی پریشر کم ہو‘۔
پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے مطابق ’پاکستان نے نہ صرف آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کر دی ہیں بلکہ دسمبر تک کی اپنی بیرونی ادائیگیوں کے لیے فنڈز کا بندوبست بھی کر چکا ہے اور اپنی بیرونی ادائیگیوں پر ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔ اگر آئی ایم ایف معاہدے کی بحالی کے لیے مزید وقت لینا چاہتا ہے تو لے لے‘۔
اس برخلاف ڈاکٹر وقار احمد کا خیال ہے کہ اس وقت پاکستان کے جو سیاسی حالات ہیں ان میں آئی ایم ایف سے معاہدے کا معاملہ مزید پیچیدہ ہو گیا۔ ان کے مطابق ’آئی ایم ایف نے معاشی ریفارمز کے ایجنڈے پر عملدر آمد کروانا ہوتا ہے اور جس طرح وفاق میں حالیہ سیاسی بحران میں حکومت کمزور نظر آئی ہے۔ ایسے میں آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات آگے بڑھتے نظر نہیں آرہے۔ اس کا اندازہ آپ اس سے بھی لگا سکتے ہیں کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے معاہدے کے بارے میں بات چیت کے لیے امریکا کے deputy secretary of Treasury نے پاکستان آنا تھا لیکن سڑکوں پر مار کٹائی کی وجہ سے یہ دورہ بھی تعطل کا شکار ہو گیا ہے‘۔
پاکستان کے معاشی اشاریے کیا بتا رہے ہیں؟
پاکستان کی معیشت اس وقت جمود کا شکار ہے۔ ملک کو بیلنس آف پیمنٹ کے کرائسز کا سامنا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس صرف 4.38 ارب ڈالرز کے ذخائر موجود ہیں جو کہ صرف 1 ماہ کی امپورٹس کے لیے کافی ہیں۔ پاکستان میں تاریخ کی بلند ترین مہنگائی ہے۔ پچھلے سال کے سیلاب کے معاشی نقصانات کے اثرات ابھی تک معیشت کو جھٹکے دے رہے ہیں۔ اس سال جون کے اختتام تک 3.7 ارب ڈالرز کے بیرونی قرضے ادا کرنے ہیں۔
آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی بحالی کے امکانات روز بروز معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں پاکستان کی سڑکوں پر سیاسی فیصلے ہونے جا رہے ہیں۔ آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم کس معاشی تباہی کے راستے پر ہیں۔