امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 19 ستمبر 2025 کو ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت ملازمت کے لیے امریکا آنے والے غیر ملکی ہنر مند افراد کے لیے سالانہ ویزا فیس 1500 ڈالر سے بڑھا کر ایک لاکھ ڈالر کردی گئی ہے۔
واضح رہے کہ ہنر مند افراد انڈیا، چین، پاکستان اور دیگر ممالک سے ایچ ون بی ویزا (اسکلڈ ویزا) کے تحت امریکا جاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق امریکا میں موجود خاص طور پر ٹیک کمپنیاں متاثر ہوں گی، جن کا انحصار چھوٹے ممالک کی اسکلڈ افرادی قوت پر ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی ورک ویزا مزید مہنگا،’ہم بہترین لوگوں کو امریکا میں آنے کی اجازت دیں گے‘،صدر ٹرمپ
یاد رہے کہ ایچ ون بی ویزا پروگرام کے تحت مالی سال 2024 میں 71 فیصد ہنرمند افراد امریکا گئے، اور امریکا جانے والے ہنرمند افراد کی فہرست میں انڈیا پہلے نمبر پر ہے۔
انڈیا سے سب سے زیادہ ہنرمند سافٹ ویئر ڈیویلپمنٹ اور پروگرامنگ سے تعلق رکھنے والے افراد اس ویزا کے تحت امریکا گئے۔ جو ان کے کل ویزوں کا قریباً 65 فیصد بنتا ہے، دیگر ہنر مند افراد انجینیئرنگ اور تعلیم کے شعبوں سے وابستہ ہیں۔
دوسرے نمبر پر اس ویزا کے تحت امریکا جانے والے افراد میں چین (11.7 فیصد) آتا ہے، پھر اس کے بعد کینیڈا، تائیوان، جنوبی کوریا، میکسیکو، نیپال، برازیل اور پھر نواں نمبر پاکستان کا ہے۔
مالی سال 2024 کے دوران پاکستان سے قریباً 0.8 فیصد ہنرمند پاکستانی ایچ ون بی ویزا کے تحت امریکا گئے ہیں۔ پاکستان سے امریکا جانے والے ہنرمندوں میں خاص طور پر آئی ٹی کنسلٹنسی اور سافٹ ویئر ڈیویلپمنٹ کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد گئے، جبکہ دیگر شعبوں میں انجینیئرنگ اور صحت شامل ہے۔
ان اعداد و شمار سے واضح اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایچ ون بی ویزا کے تحت سب سے زیادہ انڈیا اور چین سے امریکا جانے والے ہنرمند افراد متاثر ہوں گے۔
’یہ فیس نئی درخواستوں پر سالانہ بنیادوں پر لاگو ہوگی‘
یہ فیس نئی درخواستوں پر سالانہ بنیادوں پر لاگو ہوگی، جبکہ موجودہ ویزا ہولڈرز یا تجدیدوں پر لاگو نہیں ہوگی۔ یہ اقدام ٹیک انڈسٹری اور ہائی اسکلڈ امیگریشن کو نشانہ بناتا ہے، جو امریکی کمپنیوں کے لیے غیر ملکی ٹیلنٹ حاصل کرنے میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق یہ فیس 21 ستمبر 2025 سے نافذ العمل ہو جائے گی اور تمام ممالک کے شہریوں پر یکساں طور پر لاگو ہوگی۔
ایچ ون بی ویزا جو سافٹ ویئر انجینیئرز، ڈاکٹرز اور دیگر ہائی اسکلڈ پروفیشنلز کے لیے ہوتا ہے، اب تک کی سب سے مہنگی امیگریشن کیٹیگری بن گیا ہے۔ موجودہ فیس جو صرف چند سو ڈالر تھی، اب 500 گنا تک بڑھ گئی ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ یہ قدم امریکی نوکریوں کی حفاظت کے لیے ہے، کیونکہ 2025 میں ایک بڑی آئی ٹی فرم نے 1700 ایچ-1 بی ویزوں کی منظوری حاصل کی تھی جبکہ اسی سال 2400 امریکی ملازمین کو فارغ کیا گیا۔
کن ممالک پر سب سے زیادہ اثر پڑے گا؟
یہ پالیسی عالمی سطح پر لاگو ہے، یعنی بھارت، چین، پاکستان سمیت تمام ممالک کے شہریوں کو متاثر کرے گی۔ تاہم بھارت اور چین جیسے ممالک کو سب سے بڑا دھچکا لگے گا، جہاں ہر سال لاکھوں درخواست دہندگان ہوتے ہیں۔
بھارتی آئی ٹی کمپنیاں جیسے انفوسس، ٹی سی ایس اور مائیکروسافٹ جو ایچ ون بی ویزوں پر انحصار کرتی ہیں، پہلے ہی اسے تباہ کن قرار دے چکی ہیں۔
وائٹ ہاؤس نے واضح کیا ہے کہ یہ فیس کمپنیوں کو ادا کرنی ہوگی، نہ کہ انفرادی امیدواروں کو، جس کے نتیجے میں کم کمپنیاں غیر ملکی ٹیلنٹ کی اسپانسرشپ کریں گی۔
پاکستان سے ایچ-1 بی ویزا پر کتنے لوگ امریکا جاتے ہیں؟
پاکستان سے امریکا جانے والوں کی تعداد نسبتاً کم ہے۔ امریکی امیگریشن سروسز (یو ایس سی آئی ایس) کے اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2019 میں پاکستان سے 1850 ایچ-ون بی ویزا کی درخواستوں کی منظوری ہوئی تھی، جو کل منظوریوں کا صرف 0.4 فیصد تھی۔
اسی طرح 2018 میں یہ تعداد 1871 تھی۔ حالیہ برسوں میں یہ رجحان برقرار ہے، یعنی ہر سال قریباً 1800 سے 2000 پاکستانی ہائی اسکلڈ ورکرز اس ویزا پر امریکا جاتے ہیں۔
2015 کے اعداد و شمار میں پاکستان سے 2 ہزار 512 منظوریاں ہوئی تھیں، جو کل 2 لاکھ 75 ہزار 317 منظوریوں میں سے تھیں۔
یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان سے ایچ ون بی ویزا حاصل کرنے والے زیادہ تر سافٹ ویئر انجینیئرز اور آئی ٹی پروفیشنلز ہوتے ہیں، جو امریکی ٹیک کمپنیوں میں نوکریاں حاصل کرتے ہیں۔ تاہم ویزا، انٹرویو، دستاویزات کی تصدیق اور دیگر رکاوٹوں کی وجہ سے پہلے سے ہی یہ عمل انتہائی مشکل ہے۔
پاکستان پر اس پالیسی کا کیا اثر ہوگا؟
ویزا کنسلٹنسی ایکسپرٹ احمد فرہاد کا کہنا تھا کہ اس نئی فیس کا پاکستان پر براہِ راست اثر محدود ہو سکتا ہے، کیونکہ ایچ ون بی ویزا پر جانے والوں کی تعداد پہلے ہی کم ہے۔
انہوں نے کہاکہ یہ پالیسی پاکستانی آئی ٹی پروفیشنلز کے لیے ایک اور رکاوٹ بن سکتی ہے، جو پہلے ہی بجٹ اور دستاویزات کی کمی کا شکار ہیں۔ ’پاکستان سے ہر سال صرف ہزاروں میں لوگ امریکا جاتے ہیں، جبکہ بھارت سے لاکھوں۔ لہٰذا مجموعی طور پر معیشت کو بڑا دھچکا نہیں لگے گا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ انفرادی سطح پر یہ تباہ کن ہو سکتا ہے۔ ایک لاکھ ڈالر کی فیس کا بوجھ کمپنیوں پر پڑے گا، جو ممکنہ طور پر پاکستانی امیدواروں کی بجائے مقامی یا کم خرچ ٹیلنٹ کو ترجیح دیں گی۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا کا غیر ملکی طلبہ کے ویزا انٹرویوز روکنے اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال لازمی بنانے کا فیصلہ
’اس کے علاوہ امریکا کے ویزا پروگرام میں پہلے سے موجود مسائل جیسے انٹرویو میں تاخیر، ریجیکشن ریٹ (جو پاکستان میں 50 سے 70 فیصد تک ہے) اور جغرافیائی سیاسی پالیسیاں اسے مزید مشکل بنا دیں گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی نوجوان جو آئی ٹی سیکٹر میں بے روزگاری کا شکار ہیں، اب متبادل ممالک جیسے کینیڈا یا یورپ کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔