2 ستمبر 2025 کو خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں ایک فوجی مرکز پر حملے کے دوران سیکیورٹی فورسز اور حملہ آوروں کے درمیان شدید جھڑپ میں پاک فوج کے اسپیشل سروسز گروپ یعنی ایس ایس جی کے افسرمیجرعدنان اسلم شہید ہوگئے۔
واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں میجر عدنان اسلم کو اپنے ایک زخمی ساتھی کی مدد کرتے ہوئے دیکھا گیا، ویڈیو وائرل ہونے کے بعد مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر صارفین نے ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے حکومت سے انہیں نشانِ حیدر سے نوازنے کا مطالبہ بھی کیا۔
یہ بھی پڑھیں: میجر عدنان اسلم شہید کی نمازِ جنازہ راولپنڈی میں ادا، وزیراعظم و عسکری قیادت کی شرکت
ملک بھر میں سوشل میڈیا پرمیجرعدنان اسلم کو خراجِ عقیدت پیش کیا جا رہا ہے، جب کہ سیاسی و عسکری قیادت کی جانب سے بھی واقعے کی مذمت اور اہلِ خانہ سے اظہار تعزیت کی گئی ہے۔

میجر عدنان شہید کی زندگی، بچپن اور ان کی فیملی کے حوالے سے جاننے کے لیے وی نیوز نے میجر عدنان کے ماموں فرمان احمد سے گفتگو کی، جنہوں نے شہید میجر کے ساتھ زندگی کےکئی ایڈونچرکیے اور نیا رشتہ بھی بنایاتھا۔
مزید پڑھیں: بنوں چھاؤنی حملہ: افغانستان ذمہ داروں کے خلاف فوری، مضبوط اور مؤثر کارروائی کرے، پاکستان
فرمان احمد کے مطابق میجر عدنان اسلم بچپن سے ہی غیرمعمولی صلاحیتوں کے مالک تھے اور جو کچھ ایک تربیت یافتہ کمانڈو کرتا ہے، وہ سب عدنان نے بہت پہلے ہی سیکھ لیا تھا۔
’میرے عدنان سے رشتے تھے، وہ سب سے پہلے میرا بھانجا تھا، پھر میرا شاگرد، دوست اورمیرا داماد بھی تھا، ہم نے پیراگلائڈنگ، راک کلائمبنگ اور باکسنگ جیسے زندگی کے کئی ایڈونچرساتھ کیے، شاید ہی کوئی خطرناک کام ہو جو ہم نے ایک ساتھ نہ کیا ہو۔‘
بچپن سے لیڈرشپ اور ذہانت کی جھلک
عدنان کے بچپن کو یاد کرتے ہوئے فرمان احمد نے بتایا کہ وہ بچپن میں بہت شرارتی، محنتی اور ذہین تھے، جس کا کراٹے میں جنون قابلِ دید تھا۔
’اپنے کزنز میں سب سے آگے رہتا، نیشنل لیول پرجونیئراورسینیئردونوں کیٹیگریزمیں پہلی پوزیشنز حاصل کیں، اور پاکستان کی نمائندگی بین الاقوامی مقابلوں میں بھی کی۔‘

عدنان کی ذہانت اور تجسس کو بیان کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اسے مشینیں کھولنے، چیزوں کو جوڑنے، خراب چیزوں کو درست کرنے کا جنون تھا۔ گھر میں کوئی بھی مشکل چیز ہوتی، سب کہتے تھے عدنان کو دے دو، وہ ٹھیک کر دے گا۔
’وہ شہید ہے اور شہید زندہ ہوتے ہیں‘
انٹرویو کے دوران ایک موقع پر ان کی آواز شدت جذبات سے بھرا گئی لیکن ان کے الفاظ میں ایک عجیب سا سکون برقرار رہا، انہوں نے صرف ایک داماد نہیں کھویا بلکہ ایک بیٹا اور بھانجا بھی کھویا ہے۔
’۔۔۔لیکن ہمارا ایمان ہے کہ شہید زندہ ہوتے ہیں، لوگ افسوس کے لیے آتے ہیں، مگر ہم انہیں کہتے ہیں کہ افسوس نہ کریں، مبارک دیں۔ اس نے پاکستان کا سر فخر سے بلند کیا ہے۔‘
شہید عدنان کے بچے اور خاندان
میجر عدنان کے دو بچے ہیں، ایک بیٹا جس کی عمر صرف اڑھائی سال ہے، اور ایک ننھی بیٹی جو محض 6 سے 7 ماہ کی ہے۔ ’ہم عدنان کے بچوں کی پرورش بھی اسی جذبے سے کریں گے کہ وہ بھی اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلیں گے۔‘
یادیں، دعائیں اور بہادری کا ورثہ
اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے فرمان احمد کہتے ہیں کہ شہید عدنان کی یاد تو بہت آتی ہیں اور اتنی شدت سے آتی ہے کہ نیند روٹھ جاتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ وہ خواب میں آئے گا، مگر خواب تب آتے ہیں جب نیند آئے۔
’۔۔۔لیکن ہمیں خوشی ہے کہ اس نے بہت شان سے زندگی گزاری اور شاندار شہادت پائی، اس کی بہادری نے ہمیں بھی حوصلہ دیا ہے۔‘

آخری ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے فرمان احمد مسکرادیے اور بولے کہ عدنان سے ہر ملاقات ہماری آخری ملاقات لگتی تھی، کیونکہ وہ ایک عام فوجی نہیں تھا۔ وہ ہر وقت ایک مشن پر، ایک جذبے کے ساتھ جیتا تھا۔
’وہ اللہ سے ہمیشہ شہادت کی دعا کرتا تھا اور رب نے اس کی خواہش پوری کی، میں نے بہت دعائیں کیں کہ اسے کچھ نہ ہو، مگر اللہ کی رضا سب سے بہتر ہے۔‘
مزید پڑھیں: وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کا دورہ بنوں، دہشتگردی کے خلاف اہم فیصلے
فرمان احمد کے الفاظ میں ایک باپ کا درد، ایک دوست کی محبت اور ایک استاد کا فخر جھلک رہا تھا، جب انہوں نے کہا کہ انہیں خوشی ہے کہ شہید عدنان نے اپنی زندگی ایک مقصد کے تحت گزاری۔
’وہ ہمیں نظر نہیں آتا، مگر ہر پل ہمارے دلوں اور یادوں میں زندہ ہے۔‘













