حالیہ مون سون بارشوں اور 3 بڑے دریاؤں میں سیلاب سے صوبہ پنجاب کے 28 اضلاع شدید متاثر ہوئے، اس حالیہ تباہی سے لاکھوں ایکڑ فصلیں تباہ، ہزاروں گھر منہدم اور مویشیوں کو بھاری نقصان پہنچا۔
یہ بھی پڑھیں: کنگ سلمان ریلیف کے زیراہتمام پنجاب کے سیلاب متاثرہ علاقوں میں امدادی سامان تقسیم
اس صورتحال کے پیشِ نظر وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے تقریباً 500 ارب روپے کا ایک جامع ریلیف پیکیج کا اعلان کیا، جو مکمل طور پر صوبائی وسائل سے فنڈ کیا جائے گا یعنی اس پیکیج میں کسی بیرونی امداد پر انحصار نہیں کیا گیا ہے۔
ریلیف پیکیج
پنجاب میں سیلاب سے متاثرہ کسانوں کو فی ایکڑ 20,000 روپے معاوضہ دیا جائے گا تاکہ فصلوں کے نقصان کی تلافی ہو سکے، مزید برآں، کسان کارڈ اور گرین ٹریکٹر اسکیم کے تحت خصوصی رعایتیں دی جائیں گی، جو اگلی فصل کی کاشت میں مددگار ہوں گی۔
مکمل تباہ شدہ پکے گھروں کے مالکان کو 10 لاکھ روپے، جبکہ جزوی طور پر متاثرہ پکے گھروں اور تمام کچے گھروں کے مالکان کو 5 لاکھ روپے معاوضہ ملے گا۔
ہر متاثرہ گائے یا بھینس کے لیے 5 لاکھ روپے، اور چھوٹے جانوروں جیسے بکری یا بھیڑ کے لیے فی جانور 50,000 روپے دیے جائیں گے۔
معاوضے کی ادائیگی کے لیے کمیٹی کا قیام
نقصانات کا جائزہ لینے اور معاوضہ تقسیم کرنے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی قائم کی گئی ہے، جس میں اربن یونٹس، ریونیو ڈیپارٹمنٹ، ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ، لائیو اسٹاک ڈیپارٹمنٹ، اور پاک فوج کے نمائندے شامل ہیں۔
مزید پڑھیں: پنجاب میں تباہی مچانے کے بعد سیلابی ریلا سندھ میں داخل، وزیرِاعظم کا بڑا ریلیف پیکیج کا اعلان
سروے ٹیمیں 28 متاثرہ اضلاع میں تعینات کی گئی ہیں، ذرائع کے مطابق پنجاب کے متعدد اضلاع کو آفت زدہ قرار دیکر ٹیکس و آبیانہ معاف ہوسکتا ہے۔
باالفاظ دیگرحافظ آباد، سیالکوٹ، نارووال، گوجرانوالہ، گجرات اور ملتان میں کسانوں کے ذمے واجب الادا ٹیکس ہے اسکو معاف کیا جاسکتا ہے ۔
حکومتی مؤقف
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے صوبائی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے بتایا کہ 20 ہزار روپے فی ایکڑ کی رقم انہیں ملےگی، جن کی زمین 12 ایکڑ تک ہے اس سے زیادہ زمین رکھنے والوں کو جو نقصان ہوا ہے اس پر بھی حکومت کچھ نہ کچھ لائحہ عمل بنائے گئی۔
وزیر اطلاعات نے بتایا جو زرعی زمین ٹھیکے پر ہوتی ہے، حکومتی ریلیف کے پیسے اس ٹھیکے دارکو دیے جائیں گئے نہ کہ زمین کے مالک کو۔
مزید پڑھیں: پنجاب کے سیلاب متاثرین کو کتنے لاکھ روپے دیے جائیں گے؟ ریلیف کمشنر نے بتا دیا
انہوں نے بتایا کہ ایک ماہ کے اندر لوگوں کو ریلیف پیکیج کے ذریعے ادائیگی شروع ہو جائے گی اور اس ریلیف پیکیج سے پنجاب کے ترقیاقی کاموں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
کسان اس پیکیج کو ناکافی قرار کیوں قرار دے رہے ہیں؟
کسان یونینز اور رہنماؤں نے پیکیج کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ فصلوں، پودوں کی تاخیر اور پانی بھرنے سے فی ایکڑ نقصان کی لاگت 70 ہزار روپے تک لگائی گئی ہے، جبکہ 20 ہزار روپے کا معاوضہ صرف علامتی امداد ہے۔
پنجاب میں 10 لاکھ ایکڑ سے زائد زرعی زمین متاثر ہوئی، جس سے 60 فیصد چاول، 30 فیصد گنا، 35 فیصد کپاس اور 35 فیصد گیہوں کا اسٹاک تباہ ہوا، جو غذائی تحفظ اور مہنگائی پر اثر انداز ہوگا۔
دوسری جانب کسان یونینز کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ زرعی ٹیکس اور پانی کے ٹیکس پرایک سال کی مکمل چھوٹ دے، اگلے سال کی کاشت پر جو حکومت قرض ہے اسے معاف کیا جائے اور گندم کی سپورٹ پرائس کا اعلان کیا جائے۔
کسان اتحاد کا مؤقف
کسان اتحاد کے چیئرمین چوہدری حسیب انور نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ صوبائی حکومت کچھ ریلیف دینے کی کوشش کر رہی ہے مگر کسانوں کا نقصان بیس ہزار روپے فی ایکٹر سے زیادہ ہوا ہے، کسان کی زمین کے ساتھ اسکے ٹیوب ویل سمیت دیگر زرعی آلات کا بھی نقصان ہوا ہے۔
مزید پڑھیں: حکومت سیلاب متاثرین کے لیے عالمی امداد کی اپیل کیوں نہیں کر رہی؟
’اس کے جانور سیلابی پانی کی نذر ہوگئے، آنے والے دنوں میں گندم کا بحران بھی شروع ہو جائے گا، اکتوبر میں کسان نے گندم کی فصل کاشت کرنی ہے ،حکومت کو چاہیے ایک تو گندم کی سپورٹ پرائس کا اعلان کرے، دوسرا اداویات اور کھاد پر ریلیف دے کیونکہ کسان کے پاس اب کچھ بھی نہیں ہے۔‘
اشک شوئی ممکن ہے
چوہدری حسیب انور کے مطابق بیشتر سیلاب زدہ علاقوں میں 4 فٹ تک ریت آگئی ہے، ریلیف کی مد میں حکومت کے فراہم کردہ 20 ہزار روپے فی ایکڑ سے زیادہ وہاں کسانوں کی زمین سے ریت اٹھوانے میں لگ جائیں گے۔
’2010 میں جب سیلاب آیا اس وقت کی حکومت نے ریلیف دینے کا اعلان تو کیا مگر وہ ریلیف کسانوں کو نہیں پہنچا، افسران کی ملی بھگت سے وہ ریلیف کرپشن کی نذرہوگیا، حکومت اگر شفاف طریقے سے یہ ریلیف کسانوں تک پہنچا دیتی ہے تو کسانوں کو تھوڑا بہت ریلیف ضرور ملے گا۔‘
کسانوں نے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے زرعی ایمرجنسی کے نفاذ کی تجویز کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو اس درست تجویز پرعمل کرنا چاہیے۔