’چیف جسٹس کے گھر کے باہر بھی مظاہرہ ہو گا‘

پیر 15 مئی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان میں حکمراں اتحاد پی ڈی ایم کی جانب سے سپریم کورٹ کے باہر احتجاج کا اعلان ہوا تو بہت سے لوگوں نے توقع ظاہر کی تھی کہ دفعہ 144 کے نفاذ کی وجہ سے شاید مظاہرین ریڈ زون میں داخل نہ ہو سکیں۔

اسلام آباد پولیس نے بھی اعلان کیا کہ خصوصی حالات کی وجہ سے کسی کو احتجاج کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

پیر کی صبح یہ امکانات اور اعلانات اس وقت غلط ثابت ہوئے جب پی ڈی ایم کے اعلان کے بعد جے یو آئی، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے ورکرز رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے ریڈ زون میں داخل ہو گئے۔

شاہراہ دستور پر موجود اسلام آباد پولیس نے لائن بنا کر مظاہرین کو ایک مرتبہ پھر روکنے کی کوشش کی لیکن وہ سپریم کورٹ کے سامنے پہنچ گئے۔

اس مرحلہ پر سامنے آنے والی تصاویر اور ویڈیوز کے ایک منظر میں پی ڈی ایم مظاہرین کو آہنی گیٹ عبور کرتے دکھایا گیا تو بہت سے افراد نے اسے 1999 میں پرویز مشرف کے مارشل لا کے آغاز جیسا منظر قرار دیا۔

پرویز مشرف کی جانب سے اس وقت کی حکومت کا تختہ الٹنے کے دوران فوجی اہلکاروں کو سرکاری عمارت کا گیٹ پھلانگتے دکھایا گیا تھا۔ گزشتہ عرصے میں یہ منظر تواتر کے ساتھ ٹائم لائنز پر شیئر کیا جاتا رہا ہے۔

پیر کو اسلام آباد کی شاہراہ دستور پر ہونے والے احتجاج کے تناظر میں گفتگو کرنے والے صارفین نے یہ شکوہ بھی کیا کہ ’اسلام آباد کے مکینوں کو ہر دن کسی نا کسی نئے احتجاج کا سامنا ہوتا ہے۔

بات آگے بڑھی تو چند روز قبل تحریک انصاف کے احتجاج کو یاد کرنے والے ٹوئپس نے استفسار کیا کہ احتجاج صرف سپریم کورٹ کی عمارت تک محدود رہے گا یا چیف جسٹس کے گھر تک بھی بات پہنچے گی۔

تحریک انصاف کے حامی ٹویپس نے پی ٹی آئی کے ورکرز اور حکومتی اتحاد کے ساتھ کیے گئے سلوک میں تضاد کی نشاندہی کی تو گیٹ پھلانگنے کے عمل کو ’144 ٹکڑے کرنے‘ سے تشبیہ دیا۔

پی ڈی ایم کے احتجاج میں اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائزر مریم نواز بھی شریک رہیں۔ اس موقع پر دونوں جماعتوں کے قائدین اور پارٹی ورکرکز کی بڑیت عداد موجود تھی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp