توانائی کے شعبے میں آئی ایم ایف نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ گردشی قرضوں کے بہاؤ کو فوری طور پر روکا جائے اور بجلی کے نقصانات، بجلی چوری کی روک تھام اور کیپیسٹی چارجز میں کمی کے لیے ٹھوس منصوبہ پیش کیا جائے۔
پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ یعنی آئی ایم ایف کے درمیان دوسرے اقتصادی جائزہ مذاکرات اسلام آباد میں شروع ہوگئے ہیں، جن کی صدارت وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں رواں برس اور اس کے بعد مزید ترقی کی توقع ہے، آئی ایم ایف نے حوصلہ افزا نوید سنادی
وزارتِ خزانہ کے مطابق مذاکرات میں آئی ایم ایف کے مشن کی سربراہی پاکستان کی مشن چیف ایوا پیٹرووا کر رہی ہیں جبکہ فائنانس سیکریٹری امداد اللہ بوسال، گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد اور چیئرمین ایف بی آر رشید محمود لنگڑیال بھی شریک ہیں۔
Big update on Pakistan’s #power sector & #IMF talks
The government informed the IMF that it will not pay Rs220 billion in late payment surcharge to the Chinese #IPPs under #CPEC, but will pay Rs250 billion in principal. But this may upset Beijing
Key points:
– Pakistan has… pic.twitter.com/0fFQC7tF38
— KSEStocks (@ksestocksdotcom) September 29, 2025
میڈیا رپورٹس کے مطابق مذاکرات میں فنی نوعیت کی گفتگو کے بعد اب پالیسی سطح کے معاملات زیرِ غور ہیں۔
پاکستانی حکام نے مشن کو یقین دہانی کرائی کہ بینکوں سے 1225 ارب روپے کے قرض کے معاہدے کے ذریعے گردشی قرضے کو 6 سالہ مقررہ ہدف سے پہلے ہی ختم کر دیا جائے گا اور اس کے لیے صارفین پر نیا بوجھ نہیں ڈالا جائے گا۔
مزید پڑھیں: پاکستان میں رواں برس اور اس کے بعد مزید ترقی کی توقع ہے، آئی ایم ایف نے حوصلہ افزا نوید سنادی
اس ضمن میں ادائیگیاں فی یونٹ 3 روپے 23 پیسے کے پہلے سے عائد سرچارج کے ذریعے ہوں گی، جبکہ اضافی بجلی صنعتی شعبے اور کرپٹو مائننگ میں استعمال کی جائے گی۔
ایف بی آر نے ابتدائی اجلاس میں موجودہ مالی سال کے محصولات سے متعلق کارکردگی، ٹیکس وصولیوں کے اہداف اور حالیہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات پر تفصیلی بریفنگ دی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان نے آئی ایم ایف کو آگاہ کیا ہے کہ چین کے سی پیک توانائی منصوبوں کے تحت لگے پاور پلانٹس کو 220 ارب روپے کے لیٹ پیمنٹ سرچارج ادا نہیں کیے جائیں گے، تاہم 250 ارب روپے اصل واجبات کی مد میں ادا کیے جائیں گے۔
مزید پڑھیں: سیلاب زدہ معیشت کا جائزہ، آئی ایم ایف مشن 25 ستمبر کو پاکستان پہنچے گا
اس فیصلے سے بیجنگ میں تشویش پیدا ہوسکتی ہے کیونکہ 2017 سے اب تک پاکستان 18 چینی منصوبوں کو 5.1 کھرب روپے یعنی 92 فیصد واجب الادا رقم ادا کرچکا ہے لیکن اس کے باوجود پاور سیکٹر میں گردشی قرض 1.7 کھرب روپے اور گیس سیکٹر میں 2.6 کھرب روپے تک پہنچ چکا ہے۔
آئی ایم ایف نے توانائی کے شعبے میں اصلاحات کی رفتار تیز کرنے پر زور دیا ہے، جبکہ ماہرین کے مطابق صرف مالی سال 2025-26 میں بجلی کے قرضوں میں مزید 500 ارب روپے اضافہ ہوسکتا ہے جسے روکنے کے لیے حکومت کو کم از کم 540 ارب روپے سبسڈی دینا ہوگی۔