بنگلہ دیش کے وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ ملک کے جنوب مشرقی سرحدی علاقے میں بھارت کے ساتھ واقع ضلع چٹاگانگ میں ہونے والی پُرتشدد جھڑپوں میں بیرون ملک سے آنے والے ہتھیار استعمال ہوئے، جس کے باعث 3 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
چٹاگانگ میں خاتون کے ساتھ مبینہ اجتماعی زیادتی کے خلاف جھڑپیں شروع ہوئیں، جب سیکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو روکا تو اس دوران تصادم ہوگیا اور 3 افراد ہلاک ہوگئے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت نے شیخ حسینہ کی میزبانی کرکے بنگلہ دیش سے تعلقات خراب کیے، محمد یونس
فوج نے واقعے کا ذمہ دار باغیوں کو ٹھہرایا جبکہ مظاہرین نے فورسز پر فائرنگ کا الزام لگایا ہے۔
بنگلہ دیش سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے کیونکہ گزشتہ سال طلبہ کی قیادت میں ہونے والے احتجاج کے بعد سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کو اقتدار سے الگ ہونا پڑا اور وہ بھارت چلی گئیں، جس کے باعث ڈھاکا اور نئی دہلی کے تعلقات کشیدہ ہو گئے ہیں۔
وزیر داخلہ جہانگیر عالم چوہدری نے الزام لگایا کہ ہتھیار ملک سے باہر سے آ رہے ہیں، جو شرپسندوں کو فراہم کیے جا رہے ہیں، اور یہ لوگ پہاڑی علاقوں سے فائرنگ کرتے ہیں۔
یہ علاقہ طویل عرصے سے مقامی قبائلیوں اور بنگالی بولنے والوں کے درمیان تنازعات کا مرکز رہا ہے، جہاں زمین اور وسائل کے تنازعات کی وجہ سے جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ وہ 23 ستمبر کو ایک مقامی خاتون کی مبینہ اجتماعی زیادتی پر مشتعل ہیں۔
بنگلہ دیشی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے یونائیٹڈ پیپلز ڈیموکریٹک فرنٹ (یو پی ڈی ایف) کو تشدد بھڑکانے اور گولیاں چلانے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے، جو ایک باغی گروپ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان اور بنگلہ دیش کا تجارت، ثقافت اور علاقائی تعاون بڑھانے پر زور
باغیوں نے قبائلی خودمختاری کے لیے دہائیوں تک عسکری جدوجہد کی، اور 1997 میں ایک امن معاہدہ بھی کیا، لیکن یو پی ڈی ایف نے اس معاہدے کو مسترد کر دیا اور خودمختاری کے ساتھ ساتھ فوجی اڈوں کی مکمل واپسی کا مطالبہ جاری رکھا ہوا ہے۔
تشدد کے دوبارہ شروع ہونے سے بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس کے لیے چیلنج پیدا ہو گیا ہے، جو فروری 2026 میں انتخابات کرانے کا اعلان کر چکے ہیں۔