پاکستان میں بجلی صارفین پر گردشی قرضے کا بوجھ: حکومت کا لائحہ عمل کتنا مؤثر ہے؟

منگل 30 ستمبر 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان میں توانائی کے شعبے کا سب سے بڑا بحران گردشی قرضہ ہے جو ہر گزرتے سال کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: گردشی قرضے کے خاتمے کی اسکیم کا آغاز، وزیر اعظم شہباز شریف کی نیویارک سے ورچوئل شرکت

ماہرین کے مطابق اس کی بنیادی وجوہات بجلی کمپنیوں کی نااہلی، بجلی چوری، کم ریکوری اور حکومتی پالیسیوں کی کمزوریاں ہیں جس کے نتیجے میں ایمانداری سے اور بروقت بل ادا کرنے والے صارفین ہی سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

لیکن حکومت کی جانب سے گردشی قرضے کو ختم کرنے کے لیے بینکوں سے معاہدہ کیا گیا ہے۔ وہ معاہدہ کیا ہے اور کتنا موثر ثابت ہوگا آئیے جانتے ہیں۔

حکومت اور بینکوں کا معاہدہ

حکومت ن گردشی قرضے کا دباؤ کم کرنے کے لیے مقامی بینکوں کے ساتھ 1.225 کھرب روپے کے قرض کا معاہدہ کیا ہے جس میں 18 بینک شامل ہیں۔

اس رقم میں سے 659 ارب روپے پاور ہولڈنگ لمیٹڈ (پی ایچ ایل) کے پرانے قرضے اتارنے پر خرچ ہوں گے جبکہ باقی رقم آئی پی پیز اور دیگر واجبات کی ادائیگی کے لیے استعمال ہوگی۔

مزید پڑھیے: پاور سیکٹر کا گردشی قرض 2300 ارب روپے، اسمارٹ میٹرنگ کی طرف آنا ہوگا، وزیراعظم شہباز شریف

یہ قرض 4 سے 6 سال میں واپس کیا جائے گا اور اس کی ادائیگی بجلی کے بلوں پر موجود ڈیٹ سروس سرچارج (ڈی ایس ایس)  کے ذریعے کی جائے گی۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ صارفین پر نیا بوجھ نہیں ڈالا جا رہا البتہ موجودہ سرچارج 3.23 روپے فی یونٹ مزید 6 سال تک برقرار رہے گا۔حکومتی مؤقف یہ بھی ہے کہ یہ قرض رعایتی شرائط پر لیا گیا ہے تاکہ سود کی ادائیگی کا دباؤ کم ہو۔

بجلی کمپنیوں کی نااہلی نقصانات کی اصل وجہ ہے، خلیق کیانی

معاشی ماہر خلیق کیانی کا کہنا ہے کہ بجلی کمپنیوں کی نااہلی سے پیدا ہونے والے نقصانات یعنی ٹیکنیکل لوسز، بجلی چوری اور کم ریکوری ہی گردشی قرضے کی جڑ ہیں۔

خلیق کیانی نے کہا کہ حکومت اور بینکوں کے حالیہ معاہدے سے عوام کو براہِ راست کوئی ریلیف نہیں ملے گا بلکہ اس کی قیمت صارفین کو 3.23 روپے فی یونٹ اضافی سرچارج کی صورت میں آئندہ 6 سال تک ادا کرنی ہوگی۔

ملک میں 30 تا 40 فیصد بجلی چوری ہوجاتی ہے، راجہ کامران

توانائی امور کے ماہر راجہ کامران نے بتایا کہ پاکستان میں حکومت بجلی کی واحد خریدار ہے۔ یہ تمام نجی بجلی گھروں (آئی پی پیز) سے بجلی خرید کر سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی کے ذریعے وصول کرتی ہے۔ اس کے بعد بجلی این ٹی ڈی سی کے ذریعے ڈسکوز اور کے الیکٹرک تک پہنچتی ہے جہاں سے یہ صارفین کو فراہم کی جاتی ہے۔

مزید پڑھیں: آئی ایم ایف کی بجلی بلوں میں ریلیف کی منظوری، کون سے صارفین کو کتنا فائدہ ہو گا؟

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے پورے ملک میں یکساں ٹیرف پالیسی نافذ کر رکھی ہے جس کے تحت کراچی، لاہور، اسلام آباد اور پشاور میں صارف ایک ہی نرخ پر بجلی لیتے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ جب کسی شہر یا علاقے میں بجلی چوری ہوتی ہے یا بل ادا نہیں کیے جاتے تو پورے نظام میں خلل پیدا ہوتا ہے۔راجہ کامران کے مطابق ملک میں 30 سے 40 فیصد بجلی چوری ہو جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بجلی سسٹم سے نکل تو جاتی ہے مگر اس کی بلنگ نہیں ہوتی

انہوں نے مزید کہا کہ اسی طرح 10 سے 15 فیصد صارفین ایسے ہیں جو مہنگی بجلی کے باعث بل ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر 100 روپے کی بجلی فراہم کی جائے تو صرف 60 روپے واپس ملتے ہیں جبکہ باقی 40 روپے گردشی قرضے میں بدل جاتے ہیں۔

راجہ کامران کا کہنا ہے کہ جب ڈسکوز ریکوری مکمل نہیں کر پاتیں تو وہ سی پی پی اے کو رقم نہیں دیتیں اور یوں سی پی پی اے آئی پی پیز کو ادائیگی نہیں کر پاتا۔

یہ بھی پڑھیے: وفاقی حکومت کی بڑی کامیابی: 2 ہزار 600 ارب روپے کے قرضے مقررہ وقت سے پہلے ادا

انہوں نے کہا کہ آئی پی پیز کی عدم ادائیگی سے ان کے سپلائرز اور ادارے بھی متاثر ہوتے ہیں اور پورا نظام قرض کے جال میں پھنستا چلا جاتا ہے۔

راجہ کامران نے واضح کیا کہ ڈسکوز کی ناقص مینجمنٹ اور بجلی چوری روکنے میں ناکامی گردشی قرض کی سب سے بڑی وجہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ بجلی کی قیمت بار بار بڑھانی پڑتی ہے۔

معاہدہ وقتی سہارا ہے مسئلے کا مستقل حل نہیں، ماہرین

ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت کا حالیہ معاہدہ وقتی سہارا تو ہے مگر مستقل حل نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ معاہدہ قرض کو آگے منتقل کرنے کا ایک طریقہ ہے جس سے فوری ڈیفالٹ کا خطرہ کم ہو جاتا ہے مگر بجلی چوری، ناقص ریکوری اور کمزور قانون سازی جیسے بنیادی مسائل جوں کے توں رہتے ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین اقتصادی جائزہ مذاکرات؛ توانائی کے شعبے میں اصلاحات اور گردشی قرض کے خاتمے پر زور

ماہرین کا کہنا ہے کہ گردشی قرض سے حقیقی طور پر جان چھڑانے کے لیے بجلی چوری کو جرم قرار دینا، بلوں کی وصولی کو یقینی بنانا اور ڈسکوز کی مینجمنٹ کو درست کرنا ناگزیر ہے بصورت دیگر یہ بحران بار بار ابھرتا رہے گا اور اس کا بوجھ صرف ایماندار صارفین پر ڈالا جاتا رہے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

پاکستان سمیت 8 اسلامی ممالک کا مشترکہ بیان، غزہ میں امن کے لیے ٹرمپ کی کوششوں کا خیرمقدم

سپریم کورٹ: جسٹس طارق محمود جہانگیری کو کام سے روکنے کا اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار

دوحہ میں اسرائیلی حملے پر نیتن یاہو نے معافی مانگ لی ہے، قطری وزارت خارجہ کی تصدیق

کینیڈا اور بھارت کے تعلقات میں نیا موڑ، بشنوی گینگ دہشت گرد قرار

’15 دن پہلے محسن نقوی سے ہاتھ ملایا، اب قوم پرستی کا ڈرامہ‘، بھارتی ٹیم کے دوہرے معیار پر اپنے ہی لوگ پھٹ پڑے

ویڈیو

ٹرینوں کا اوپن آکشن: نجکاری یا تجارتی حکمت عملی؟

نمک منڈی میں چپلی کباب نے بھی جگہ بنالی

9 ٹرینوں کا اوپن آکشن اور نئی ریل گاڑیوں کا منصوبہ بھی، ریلویز کا مستقبل کیا ہے؟

کالم / تجزیہ

یہ حارث رؤف کس کا وژن ہیں؟

کرکٹ کی بہترین کتاب کیسے شائع ہوئی؟

سیزیرین کے بعد طبعی زچگی اور مصنوعی دردِ زہ