بچے کھیل کے بانی ہیں، بڑوں نے یہ راز انہی سے سیکھا تھا کہ کھیل تعلق اور قربت پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ ماہرین بشریات تو یہاں تک کہتے ہیں کہ بڑوں نے شکار کرنا بھی بچوں کے کھیل سے سیکھا تھا۔ یہ بچے تھے جو کوئی چیز کسی چیز پر پھینک کر اس کا لطف لیتے۔ نشانہ اکثر خطا ہوتا مگر جب ٹارگٹ ہٹ ہوجاتا تو ان کی خوشی آسمان کو چھوتی۔ یہ راز بھی بڑوں نے بچوں سے ہی سیکھا تھا کہ کھیل سے جڑے جھگڑے بس کھیل کے میدان تک ہی رہتے ہیں۔ یہ میدان سے باہر کے تعلقات پر منفی اثر نہیں ڈالتے۔ جو بچے آج کھیلتے ہوئے کسی بات پر الجھے، وہی اگلے دن کھیل کا پھر سے لطف لیتے دیکھے گئے۔
اگر غور کیجیے تو خود بچہ کھیل کسی سے نہیں سیکھتا۔ بالکل ابتدائی سطح پر وہ بس کسی چیز کو پہلے اپنے کنٹرول میں لانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی کوشش اسے کھیل کے لطف سے یوں آشنا کر دیتی ہے کہ جس شئی کو ابھی دونوں ہاتھوں میں لیا تھا وہ اگلے ہی لمحے چھوٹ گئی۔ پھر سے حصول اور پھر سے چھوٹنا اس کے لیے ایک دلچسپ تجربہ بن گیا۔ اور یوں شروع ہوجاتے ہیں عمر کے ساتھ ساتھ کھیل کے اگلے مراحل سر ہونا۔ مگر قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ جس چیز کا آغاز اس کے لیے عقلی نہیں بلکہ محض فطری بات تھی، وہی اگلے مراحل میں اسے مذاکرات جیسا عقلی عمل سکھانے کے کام آتی ہے۔ ادھر ساتھی بچوں کے ساتھ دوران کھیل کوئی اختلاف ہوا، ادھر ہر بچہ اپنی اپنی دلیل کے ساتھ اپنا مؤقف منوانے کی کوشش میں لگ گیا، اور مذاکرات کار بچے بالآخر مسئلہ حل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
یہی سب دیکھ کر بڑوں نے بھی اپنے لیے کچھ کھیل ترتیب دے ڈالے، جن کا معاشرے پر زبردست مثبت اثر پڑا، اور یہی چیز وقت کے ساتھ ساتھ اتنی ترقی کر گئی کہ کھیل کو بین الاقوامی تعلقات میں بھی کلیدی اہمیت حاصل ہوگئی۔ اس کی مدد سے قوموں کے بیچ بڑھ جانے والے سیاسی درجہ حرارت کو کنٹرول میں لانے کی کامیاب کوششیں ہوئیں۔ ان کوششوں کی اہمیت اس حد تک مسلم رہی کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جلد ہی 1952 کے ہلسنکی اولمپکس میں جرمنی اور جاپان کو پھر سے شامل کیا گیا۔ جس سے نہ صرف یہ کہ ان ممالک کے اپنے سابق دشمنوں سے تعلقات میں بہتری آنی شروع ہوئی بلکہ جرمن اور جاپانی قوم کا اعتماد بحال ہونے میں بھی زبردست مدد ملی۔
بین الاقوامی تعلقات میں کھیلوں کے مثبت اثر کو دو بڑی مثالوں سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ’پنگ پانگ ڈپلومیسی‘ کا حوالہ تو سنا ہی ہوگا؟ کوریا کی جنگ کے بعد سے امریکا اور چین کے تعلقات شدید قسم کی سرد مہری کا شکار تھے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے سے لاتعلق بیٹھے تھے، جب پاکستان نے ان کے بیچ پل کا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا تو دونوں ممالک کے بیچ کسی باضابطہ سیاسی رابطے سے قبل کوئی ایسا قدم اٹھانا ضروری سمجھا گیا جس سے ایسا ماحول بن جائے کہ لگے دونوں قوموں کے بیچ ’کنکشن‘ موجود ہے، اور اگلے مرحلے میں دونوں ہی قوموں کو سیاسی رابطے کی خبر خوشگوار کیفیت سے دوچار کردے۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے امریکی ٹیبل ٹینس ٹیم کو دورہ چین کی دعوت دی گئی، اور یہ سب اتنی تیزی سے کیا گیا کہ 6 اپریل 1971 کو امریکی ٹیم کو باضابطہ دعوت نامہ جاری ہوا، اور 10 اپریل کو ٹیم بیجنگ پہنچ گئی۔ 10 روزہ دورے کے دوران امریکی ٹیم مختلف چینی شہروں میں چائنیز ٹیبل ٹینس ٹیم سے کھلی۔ جس سے دونوں ممالک کے بیچ سفارتی رابطے کی راہ ہموار ہوگئی۔
دوسرا واقعہ خود ہماری قومی تاریخ کا ایک یادگار حصہ ہے۔ جنرل ضیا کی 1987 والی ’کرکٹ ڈپلومیسی‘۔ وہ دورہ ایسے ماحول میں ہوا تھا کہ انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق ان دنوں جاری انڈین ملٹری کی براس ٹیک مشقیں محض فوجی مشقیں نہ تھیں بلکہ یہ پاکستان پر حملے کی تیاری تھی۔ قابل غور نکتہ یہ ہے کہ اس شدید کشیدگی کے دوران بھی پاکستان کرکٹ ٹیم کا دورہ انڈیا جاری تھا۔ یعنی اس کشیدگی میں بھی اسپورٹس تعلقات معمول کے مطابق قائم تھے۔ انہیں سیاست کی نذر نہ کیا گیا تھا۔ چنانچہ اسی کا فائدہ اٹھا کر جنرل ضیا جے پور ٹیسٹ دیکھنے پہنچ گئے۔ جنرل ضیا بڑے ’اللہ والے‘ تھے۔ وہ راجیو گاندھی کے کان میں کچھ ایسا دم پھونک آئے جس سے امن قائم ہوگیا۔ اگرچہ سارا کردار جنرل ضیا کے دم کا تھا، مگر دنیا مانتی یہ ہے کہ جنرل ضیاء کے ’خوشگوار دورہ انڈیا‘ نے برف پگھلائی۔
اس پورے پس منظر میں یہ سوال عین فطری ہے کہ جب کھیل کا خوشگوار بین الاقوامی تعلقات میں کلیدی کردار اس حد تک ثابت ہے تو پھر یہ صورتحال کیسے پیدا ہوگئی کہ خوشگوار تعلقات کے اس اہم ترین ٹول کو ہی غیر مؤثر کردیا گیا؟، اور انڈیا کی جانب سے اب کھیل کو بھی باقاعدہ جنگ کی ہی ایک قسم بنا دیا گیا؟ اسے سمجھنے کے لیے ہمیں یہ نکتہ سمجھنا ہوگا کہ کھیل کو بین الاقوامی تعلقات میں کلیدی کردار کس نے دیا تھا؟ یہ اپنے دور عروج میں مغرب کی ہی ایک شاندار اسکیم تھی کہ جدید پالیٹکس اور ڈپلومیسی میں کھیل کو یہ اہم کردار ملا۔ جب تک مغرب کی گرفت مضبوط رہی تب تک کھیل قوموں کے بیچ بہتر تعلقات میں اپنا مثبت کردار ادا کرتے رہے۔ یوں ایک لحاظ سے یہ مغرب کا ہی ٹول تھا جس کا سب فائدہ اٹھاتے رہے۔
لیکن جب دنیا پر مغرب کی گرفت ڈھیلی پڑنی شروع ہوئی تو مغرب کی باقی چیزوں کے ساتھ ساتھ یہ اہم ترین ٹول بھی متاثر ہوتا چلا گیا۔ چنانچہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ دنیا کے شاندار ایتھلیٹس والے ملک روس کو 2016 سے اولمپکس مقابلوں میں کس قدر بدترین سیاسی تعصب کا سامنا ہے۔ کبھی ان کے کھلاڑیوں پر مکمل پابندی لگائی گئی تو کبھی اس شرط کے ساتھ کھیلنے کی اجازت دی گئی کہ یہ اپنے ملک کی شناخت کے ساتھ شرکت نہیں کرسکتے۔ ایونٹ کے دوران نہ تو یہ کھلاڑی روسی پرچم استعمال کرسکیں گے اور نہ ہی ان کی جیت پر ان کا قومی ترانہ بجے گا۔ یہ سب ہم سب کی نظروں کے سامنے ہوا ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے ہم پاکستانی بین الاقوامی تعلقات میں جنگوں کے سوا دلچسپی لیتے کہاں ہیں؟ ہم تو فلسطینیوں کو بھی اس عرصے میں بھول جاتے ہیں جب اسرائیل سے ان کی کوئی جنگ نہ چل رہی ہو۔ نتیجہ دیکھیے کہ ہم یہ تو جانتے ہیں انڈین پلیئرز نے حالیہ کرکٹ مقابلوں کے دوران پاکستانی پلیئرز سے ہاتھ نہیں ملایا۔ مگر ہم یہ نہیں جانتے کہ عین یہی حرکت یوکرینی پلیئرز بھی اپنے آقاؤں کے اشارے پر روسی پلیئرز کے ساتھ کرچکے۔
سو سمجھنے والی بات یہ ہے کہ کھیلوں کا موجودہ عالمی اسٹرکچر بھی مغرب کے باقی اسٹرکچرز کی طرح زمیں بوس ہو رہا ہے، اب ہم اس دور میں ہیں جہاں کھیل تعلقات بہتر کرنے کا نہیں بلکہ نفرتیں بڑھانے کا ہتھیار بن چکے۔ اس دور میں جو محسن نقوی نے کیا وہی وقت کا تقاضا ہے۔ جب آپ سے کرکٹ کے میدان میں بھی جنگ لڑی جا رہی ہے تو جواب جنگی وار کی طرح ہی آنا چاہیے۔ اور مودی کو دکھانا چاہیے کہ اس کی ٹرافی اب ’ابھینندن‘ بن کر ہماری تحویل میں رہے گی۔ جب تک کھیل جنگ کے ماحول میں چل رہا ہے، چلنے دیجیے مگر مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ سب مزید بس چند سال ہی چلے گا۔ جلد ہی ہم نئے عالمی اسٹرکچرز کھڑے ہوتے دیکھیں گے۔ بالکل اسی طرح جس طرح چین نے حال ہی میں عالمی عدالت انصاف کا متبادل ادارہ کھڑا کرنے کی بنیاد ڈال دی ہے۔ جہاں آنے والے وقت میں ممالک کے مابین موجود تنازعات کے تصفیے ہوں گے۔
یہ بات پیرس اولمپکس کے دوران رشین اور چائنیز میڈیا پہلے ہی کہہ چکا کہ دنیا کو کھیلوں کے متبادل پلیٹ فارمز درکار ہیں۔ وہ صاف صاف اس بین الاقوامی اولمپک کمیٹی پر عدم اعتماد کرچکے جو مغربی کٹھ پتلی سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ آپ نے دیکھا نہیں پیرس اولمپکس کس قدر بے رونق اور اسکینڈلز سے بھرپور رہے؟ عقل دنگ رہ گئی کہ ’کھسرے‘ کے ہاتھوں خاتون کھلاڑی کا جبڑا تڑوا کر معافی بھی ٹوٹے جبڑے والی سے منگوائی گئی۔ مگر زیادہ حیران ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہم تو پہلے ہی کہتے تھے کہ مغربی نظام شاندار قسم کے گفٹ پیپر میں سلیقے سے پیک کیا گیا گوبر ہے۔ یہ ہمارے لبرل دانشور تھے جو اسے زعفران کے نام سے پیش کیا کرتے۔ اب گفٹ پیپر پھٹ رہا ہے تو حقیقت سامنے آتی چلی جا رہی ہے، اور پیدل عقلیں تسلیم کرنے لگی ہیں کہ جنہیں لازوال سمجھا گیا تھا وہی عقل کے دشمن بن کر زوال آشنا ہوگئے!
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔