امریکی نیوز ایجنسی ایکسیوس نے دعویٰ کیا ہے کہ پیر کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کیا گیا غزہ امن منصوبہ وہی منصوبہ نہیں رہا جو امریکا اور بعض عرب و مسلم ممالک نے پہلے طے کیا تھا بلکہ اس میں اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے اہم ترامیم کروائی ہیں جن سے عرب حکام تشویش میں مبتلا ہو گئے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اتوار کو وائٹ ہاؤس کے خصوصی ایلچی سٹیو وٹکاف اور ٹرمپ کے داماد جیرڈ کوشنر نے نیتن یاہو کے ساتھ 6 گھنٹے ملاقات کی، نتیجتاً منصوبے میں متعدد ترامیم شامل کرائی گئیں، ان میں خصوصی طور پر غزہ سے اسرائیلی فوجی انخلا کی شرائط اور شیڈول شامل ہے۔
یہ بھی پڑھیے: غزہ جنگ بندی منصوبہ: ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس کو جواب کے لیے 4 روز کا وقت دے دیا
واضح رہے کہ گزشتہ روز پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے بھی پریس کانفرنس میں عندیہ دیا تھا کہ ٹرمپ کا منصوبہ وہ نہیں جو ہم عرب اسلامی ممالک نے انہیں بھیجا تھا تاہم تفصیل میں گئے بغیر انہوں نے کہا تھا کچھ نکات ہم اس میں شامل کرنا چاہتے ہیں جو شامل کیے جائیں گے۔
ایکسیوس کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ نئی تجویز اسرائیلی انخلا کو حماس کی ضبطِ اسلحہ کی پیش رفت سے مشروط کرتی ہے اور اسرائیل کو انخلا کے معاملے میں ویٹو دینے کا اختیار دیتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: غزہ کے لیے مجوزہ امن معاہدہ: اہم نکات، مضمرات، اثرات
تمام شرائط پوری ہونے پر بھی اسرائیلی انخلا فوری نہیں بلکہ 3 مراحل میں مکمل بھی ہوگا۔ نئی تبدیلیوں کے مطابق جب تک غزہ دہشت گردی خطرے سے مکمل طور پر محفوظ نہ ہو اسرائیلی فوج چند علاقوں میں موجود رہے گی، جس کا مطلب غیر معینہ مدت تک رہنا ہو سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سعودی عرب، مصر، اردن اور ترکی کے حکام ان ترامیم پر شدید ناراض تھے۔ قطر کے مشورے کے باوجود کہ پیر کو تفصیلی منصوبہ جاری نہ کیا جائے، وائٹ ہاؤس نے اسے شائع کر دیا اور عرب و مسلم ممالک پر یہ منصوبہ حمایت کرنے کے لیے دباؤ بھی ڈالا۔ اس کے بعد 8 ممالک نے مشترکہ بیان جاری کر کے ٹرمپ کے اعلان کا خیرمقدم کیا مگر معاہدے کے لیے مکمل حمایت کا اظہار نہیں کیا۔
یہ بھی پڑھیے: ٹرمپ کا غزہ امن منصوبہ: نیتن یاہو کی حمایت حاصل، حماس کی منظوری باقی
تاہم حقائق کے برعکس وِٹکاف نے فوکس نیوز کو بتایا کہ ٹرمپ کے منصوبے کو مشرقِ وسطیٰ اور یورپ میں وسیع حمایت حاصل ہے۔
فلسطینی صدر محمود عباس نے ٹرمپ کی خانہ جنگی ختم کرنے کی کوششوں کو سراہا اور انہیں امن کی راہ تلاش کرنے کی صلاحیت پر اعتماد کا اظہار کیا جو کہ اِس لحاظ سے اہم ہے کہ فلسطینی اتھارٹی نے ٹرمپ کی پہلی مدتِ صدارت میں ان کے امن منصوبے کو قطعی طور پر مسترد کیا تھا۔