ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ غزہ اور فلسطین میں جاری قتلِ عام اور ریاستی جبر کے خلاف سب سے مؤثر آواز ترکیہ کی پارلیمنٹ سے اٹھی ہے، ہم اس وقت تک اپنی کوششیں جاری رکھیں گے جب تک 1967 کی سرحدوں کے مطابق مشرقی بیت المقدس کو دارالحکومت بنانے والی آزاد فلسطینی ریاست قائم نہیں ہو جاتی۔
گرینڈ نیشنل اسمبلی میں نئے پارلیمانی سال کی افتتاحی نشست سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ترکیہ کی پارلیمان جو 86 ملین عوام کی نمائندگی کرتی ہے نے فلسطینیوں کی حمایت میں 7 متفقہ اعلامیے جاری کیے، جو قوم کے ضمیر کی آواز اور دنیا کو ترکیہ کا واضح پیغام ہے کہ وہ فلسطینی عوام کے ساتھ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نیتن یاہو کے کہنے پر غزہ امن منصوبے میں اہم تبدیلی، عرب ممالک ناراض، رپورٹ میں انکشاف
صدر اردوان کے مطابق یہ مؤقف نہ صرف ترکیہ کے اندرونی عوامی جذبات کی عکاسی کرتا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی ترکیہ کے اصولی مؤقف کو اجاگر کرتا ہے۔ غزہ میں اسرائیلی مظالم پر ترکیہ کا اٹل مؤقف ایک قابلِ تقلید مثال بن چکا ہے۔
انہوں نے یاد دلایا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 29 اگست کو جو قرارداد منظور کی وہ فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی جارحیت اور نسل کشی کی شدید مذمت پر مبنی تھی، اور یہ ان ممالک کے لیے پیغام ہے جو ظلم پر خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔
صدر اردوان نے یہ بھی کہا کہ پارلیمانی سطح پر فلسطین کے لیے سرگرم کوششیں ترکیہ کی سفارتی حکمت عملی کا اہم جزو ہیں، جن کے ذریعے ترکیہ نے نہ صرف عملی طور پر فلسطینیوں سے یکجہتی کا اظہار کیا بلکہ عالمی برادری کے سامنے اپنی اصولی پالیسی کو بھی پیش کیا۔
انہوں نے واضح کیاکہ ہم نے اپنی زندگی بیت المقدس کی آزادی کے لیے وقف کر رکھی ہے اور خدا کی رضا سے، ہم اپنے آخری دم تک فلسطین اور قبلہ اول کے دفاع میں پیش پیش رہیں گے۔
رجب طیب اردوان کے مطابق ترکیہ نے غزہ کو کبھی تنہا نہیں چھوڑا، اب تک ایک لاکھ 2 ہزار ٹن سے زیادہ انسانی امداد فراہم کی جا چکی ہے، اسرائیل سے تجارت منقطع کر دی گئی ہے، عالمی عدالت انصاف میں نسل کشی کے مقدمے میں شامل ہو کر قانونی جنگ بھی لڑی جا رہی ہے اور کئی دیگر سفارتی، قانونی و معاشی اقدامات کیے گئے ہیں۔
’ٹرمپ کے ساتھ ملاقات میں پہلا موضوع غزہ میں جاری خون ریزی کا خاتمہ تھا‘
انہوں نے کہاکہ امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ ان کی ملاقات میں پہلا موضوع غزہ میں جاری خون ریزی کا خاتمہ تھا، جہاں ترکیہ نے عملی حل اور پائیدار امن کی تجاویز پیش کیں۔
صدر اردوان کا کہنا تھا کہ جنگ کا کوئی فاتح نہیں ہوتا، اور انصاف پر مبنی امن ہی کامیاب رہتا ہے۔ فلسطینی عوام اپنی ثابت قدم جدوجہد کی وجہ سے دنیا میں سب سے زیادہ امن کے حقدار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ترکیہ اس وقت تک اپنی کوششیں جاری رکھے گا جب تک 1967 کی سرحدوں کے مطابق، مشرقی بیت المقدس کو دارالحکومت بنانے والی آزاد فلسطینی ریاست قائم نہیں ہو جاتی۔
’شام کو کسی دہشتگرد گروہ کو ابھرنے کی اجازت نہیں دی جائےگی‘
شام کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے رجب طیب اردوان نے کہا کہ ترکیہ شام کی سرزمین کی سالمیت کا حامی ہے اور کسی دہشت گرد گروہ کو ابھرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ترکیہ صرف اپنے اندرون ملک کرد شہریوں کے لیے نہیں بلکہ سرحد پار کرد برادری کے لیے بھی سب سے بڑا مددگار اور محافظ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: فلسطین سے متعلق پاکستان کی پالیسی واضح، غزہ امن منصوبے پر سیاست نہ کی جائے، اسحاق ڈار
انہوں نے زور دیا کہ انقرہ کی کوششیں جذباتیت یا جلد بازی پر مبنی نہیں بلکہ صبر، فہم اور حکمت پر مبنی ہیں تاکہ خطے میں مستقل امن قائم کیا جا سکے۔ لیکن اگر ان کوششوں کو مثبت جواب نہ ملا، تو ترکیہ کا مؤقف واضح ہے، اور وہ شام میں کسی نئی بدامنی کو قبول نہیں کرے گا۔