وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کہا ہے کہ پورا پنجاب ان کے لیے ایک مٹھی کی طرح ہے جس میں کسی خطے کی تفریق نہیں۔
وہ یونیورسٹی آف ہوم اکنامکس لاہور میں پوزیشن ہولڈر طلبہ کے اعزاز میں منعقدہ تقریب سے خطاب کررہی تھیں۔
’میرے لیے کوئی نارتھ پنجاب، ساؤتھ پنجاب یا سینٹرل پنجاب نہیں، پورا صوبہ میری اولاد کی طرح ہے اور میں سب کو جوڑ کر رکھنا چاہتی ہوں۔‘
یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے آسان کاروبار کارڈ کا اجرا کردیا
وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہونہار طلبہ نے والدین، اساتذہ، پنجاب اور پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔
انہوں نے پوزیشن ہولڈر طلبا اور ان کے والدین اور اساتذہ کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ جس ملک میں اتنے ٹاپر ہوں، اس پر زوال نہیں آسکتا۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب میں 80 ہزار بچے اسکالرشپ پر تعلیم حاصل کر رہے ہیں جبکہ صوبے کے 50 ہزار سرکاری اسکولوں میں کروڑوں بچے زیر تعلیم ہیں۔
مزید پڑھیں: مریم نواز کا ایک سال میں’ایئر پنجاب‘ شروع کرنے کا اعلان
مریم نواز نے سوشل میڈیا کے حوالے سے کہا کہ وہاں نظر آنے والی ہر بات پر آنکھیں بند کر کے یقین نہ کیا جائے۔
’حقیقت وہ ہے جو آپ کے سامنے ہے، جیسے سڑکوں پر دوڑتی گرین بسیں، عوام کو ملنے والے 90 ہزار گھر اور پنجاب میں 13 روپے کی روٹی جبکہ پاکستان کے دیگر حصوں میں یہ 20 روپے کی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب میں حالیہ تاریخی سیلاب کے دوران ریسکیو آپریشن بھی تاریخی ثابت ہوا اور وہ خود ہر شہر جائیں گی تاکہ متاثرین کو ان کے نقصان کے مطابق امداد فراہم کر سکیں۔
مزید پڑھیں: وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے طلبا و طالبات کو مزید ای بائیکس دینے کا اعلان کردیا
مریم نواز نے کہا کہ عوام کو سمجھنا ہوگا کہ فرق صرف باتیں کرنے والوں اور عملی کام کرنے والوں کے درمیان ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے سرکاری ٹھیکے من پسند افراد کو دیے جاتے تھے لیکن اب تمام ٹھیکے میرٹ پر دیے جاتے ہیں۔
وزیر اعلیٰ پنجاب نے مزید کہا کہ نوجوان ملک کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی ہیں اور پنجاب کے بیٹوں کے ساتھ بیٹیوں نے بھی نمایاں کارکردگی دکھائی ہے۔
مزید پڑھیں: مریم نواز کا ایک سال میں’ایئر پنجاب‘ شروع کرنے کا اعلان
’میرا اصل فوکس نوجوانوں پر ہے اور میں چاہتی ہوں کہ تعلیم کے ذریعے امیر اور غریب کا فرق ختم ہو۔‘
وزیراعلیٰ نے ’اسکول میل پروگرام‘ کو پورے پنجاب تک بڑھانے اور ہر اسکول میں سبجیکٹ اسپیشلسٹ فراہم کرنے کا اعلان کیا۔
’میں نہیں چاہتی کہ میرے بچے برآمدوں میں بیٹھ کر پڑھیں، ہر اسکول کو سینٹر آف ایکسیلنس بنایا جائے گا۔‘