وزیراعظم شہباز شریف نے آزاد کشمیر کی صورتحال کے حل کے لیے اعلیٰ سطحی مذاکراتی کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس کمیٹی میں تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے نمائندے شامل ہیں، جو حکومت کے سنجیدہ اور مثبت رویے کا واضح ثبوت ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ قدم امن، مکالمے اور مصالحت کے فروغ کے لیے اٹھایا گیا ہے، تاکہ انتشار کے بجائے مسائل کا حل تلاش کیا جا سکے۔
اس اعلان کے بعد آزاد کشمیر میں امن و سلامتی کی بڑی ذمہ داری عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت پر عائد ہوتی ہے۔ حکومت نے واضح کیا ہے کہ اگر عوامی ایکشن کمیٹی مذاکرات سے گریز یا اشتعال کی سیاست جاری رکھتی ہے تو انہیں عوام کو جواب دینا ہوگا کہ انہوں نے مصالحت کے بجائے محاذ آرائی کا راستہ کیوں چنا۔
سرکاری سطح پر اس خدشے کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ ایک لیک شدہ میمو میں انکشاف ہوا تھا کہ عوامی ایکشن کمیٹی کی صفوں میں موجود بعض عناصر کو بھارتی اہلکاروں نے آزاد کشمیر میں بدامنی پھیلانے کی ہدایات دی تھیں۔ ایسے میں حکومت نے عوامی ایکشن کمیٹی پر زور دیا ہے کہ وہ غیر ملکی ایجنڈے کا حصہ بننے کے بجائے کشمیری عوام کے حقیقی نمائندے کے طور پر ذمہ دارانہ کردار ادا کریں۔
حکومتی مؤقف کے مطابق مذاکرات کو مسترد کرنا محض حکومت کی مخالفت نہیں بلکہ کشمیری کاز سے غداری اور معصوم شہریوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہوگا۔ حکومت نے قومی اتفاق رائے، تدبر اور امن کے لیے کھلے دل کا مظاہرہ کیا ہے، اب عوامی ایکشن کمیٹی پر لازم ہے کہ وہ بالغ نظری اور اخلاص کے ساتھ آگے بڑھے۔
مزید پڑھیں: وزیراعظم شہباز شریف کی کشمیر میں احتجاج ختم کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ہدایت
عوامی سطح پر بھی یہ اپیل کی گئی ہے کہ کشمیری عوام پہچانیں کہ امن اور حل کون چاہتا ہے اور انتشار پر کون قائم ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ روزگار، تعلیم اور صحت جیسے بنیادی مسائل ہڑتال کی سیاست سے زیادہ اہم ہیں، اس لیے AAC کو ہڑتال کی کال واپس لے کر مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔