پاکستان کی سیاسی تاریخ میں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی 2 بڑی جماعتیں ہیں، جنہیں کبھی ایک دوسرے کی سخت ترین حریف تو کبھی اتحادی کے طور پر دیکھا گیا۔
لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ جب بھی یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ اقتدار میں شریک ہوتی ہیں، کچھ ہی عرصے بعد اختلافات اور کشیدگی جنم لے لیتی ہے۔ حالیہ دنوں میں پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے درمیان پیدا ہونے والی تلخیوں نے ایک بار پھر ماضی کی یاد تازہ کر دی ہے۔
حالیہ اختلافات کی ابتدا
2024 کے عام انتخابات کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے ایک بار پھر اقتدار کے لئے ہاتھ ملایا۔ مرکز میں اتحادی حکومت قائم ہوئی جبکہ پنجاب میں مریم نواز وزیر اعلیٰ بنیں۔ ابتدا میں دونوں جماعتوں نے مفاہمت اور تعاون کا عندیہ دیا مگر وقت کے ساتھ ساتھ شکوک و شبہات بڑھنے لگے۔
پیپلز پارٹی کی قیادت کا مؤقف ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے وعدے کے باوجود پنجاب میں انہیں خاطر خواہ نمائندگی نہیں دی۔ کئی اہم فیصلے، مثلاً ترقیاتی منصوبوں کی تقسیم اور بیوروکریسی میں تقرریاں، پیپلز پارٹی کو اعتماد میں لیے بغیر کیے گئے۔
2025 کے آغاز میں یہ اختلافات اس وقت شدت اختیار کر گئے جب پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے کھلے عام مسلم لیگ (ن) پر معاہدوں کی خلاف ورزی کا الزام لگایا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق مریم نواز اور آصف علی زرداری کے درمیان رابطوں کے باوجود یہ کشیدگی کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہے۔
پیپلز پارٹی کی جانب سے ایوان میں بھی مسلم لیگ ن اور وزیر اعلی پنجاب مریم نواز کے بیان پرسخت رد عمل سامنے آیا اور نوید قمر نے اس کا برملا اظہار بھی کیا۔ پیپلز پارٹی نے ایوان سے واک آوٹ بھی کیا۔ مسلم لیگ ن کے سلجھے وزیر قانون اعظم نزیر تارڑ نے معذرت کی اور انہیں منانے کی بھی کوشش کی۔
معاملہ یہاں رکا نہیں، دونوں صوبوں کے وزرا اطلاعات اور دیگر وزرا اور رہنماوں کی جانب سے ایک دوسرے پر سخت تنقید کا سلسلہ چلتا رہا پریس کانفرنسز بھی ہوئے۔
پیپلز پارٹی نے پنجاب کے اپنے جیالے حسن مرتضیٰ، سابق وزیر اعظم راجا پرویز اشرف سمیت مختلف جیالوں کو میدان میں اتارا اور بھر پور جواب بھی دئیے۔ جب مسلم لیگ ن کی جانب سے مزید بیانات کا سلسلہ جاری رہا تو پیپلز پارٹی کو ایک بار پھر قمر زمان کائرہ کو میدان میں اتارنا پڑا۔ انہوں نے بھی اپنے پریس کانفرنس میں مسلم لیگ اور وزیر اعلی پنجاب کو خوب جوابات دئیے۔
تاریخی تناظر: 2008 کا بُربن معاہدہ
یہ پہلا موقع نہیں کہ دونوں جماعتیں اتحادی بننے کے بعد اختلافات کا شکار ہوئیں۔ 2008 کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے بُربن میں ایک معاہدہ کیا جس میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ مشرف دور میں برطرف کیے گئے ججز کو بحال کیا جائے گا۔
تاہم، پیپلز پارٹی نے اس معاملے پر تاخیری حربے اختیار کیے، جس پر مسلم لیگ (ن) نے سخت ردِعمل دیا اور بالآخر مرکز میں اتحادی حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی۔ یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان اعتماد کی کمی ہمیشہ ایک بنیادی مسئلہ رہی ہے۔
اتحادی حکومت (2008-2013) اور مستقل کشمکش
پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت (2008-2013) میں مسلم لیگ (ن) نے ابتدا میں حکومت کا حصہ بننے کے بعد جلد ہی علیحدگی اختیار کی اور اپوزیشن میں بیٹھ گئی۔
اس دوران دونوں جماعتوں کے درمیان بارہا کشیدگیاں سامنے آئیں، مثلاً این آر او، عدلیہ کی بحالی، گورنر راج اور بدعنوانی کے الزامات۔ ان اختلافات نے اس تاثر کو مضبوط کیا کہ دونوں جماعتوں کے درمیان اتحاد وقتی مجبوری ہوتا ہے، دیرپا تعلق نہیں۔
2022-2023: پی ڈی ایم کا تجربہ
عمران خان کی حکومت کے خلاف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے اپوزیشن جماعتوں کو اکٹھا کیا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ایک بار پھر ایک ہی صف میں نظر آئیں اور تحریک انصاف کی حکومت گرانے میں کامیاب ہو گئیں۔
تاہم، جیسے ہی عبوری حکومت اور انتخابات کی بحث شروع ہوئی، اختلافات نے سر اٹھا لیا۔ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) پر یہ الزام لگایا کہ وہ مرکز اور پنجاب میں اختیارات پر اجارہ داری چاہتی ہے۔
یہ سوال اہم ہے کہ آخر ہر 2 سے 3 سال بعد ان دونوں جماعتوں کے درمیان اختلافات کیوں جنم لیتے ہیں؟ اس کی چند بنیادی وجوہات درج ذیل ہیں:
سیاسی مفادات کا ٹکراؤ: دونوں جماعتیں ایک ہی ووٹ بینک کو ٹارگٹ کرتی ہیں، بالخصوص پنجاب میں۔ اس لیے دیرپا شراکت داری مشکل ہو جاتی ہے۔
اعتماد کی کمی: ماضی کے تجربات نے یہ واضح کیا ہے کہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے وعدوں پر مکمل بھروسہ نہیں کرتیں۔
طاقت کی تقسیم کا مسئلہ: وزارتوں، ترقیاتی منصوبوں اور بیوروکریسی میں اثرورسوخ کی تقسیم ہمیشہ تنازع کا باعث بنتی ہے۔
ذاتی اور خاندانی سیاست: نواز شریف، آصف زرداری، بلاول بھٹو اور اب مریم نواز کے ذاتی بیانیے اور اندازِ سیاست بھی کشیدگی بڑھانے میں کردار ادا کرتے ہیں۔
2025 میں جاری اختلافات نے ایک بار پھر سوال کھڑا کر دیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا یہ اتحاد کتنی دیرپا ثابت ہوگا؟ اگرچہ دونوں جماعتوں کو تحریک انصاف کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا سامنا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ باہمی بداعتمادی ان کے اتحاد کو غیر مستحکم کر رہی ہے۔
ماہرین سیاست کہتے ہیں کہ اگر دونوں جماعتیں اقتدار کی بجائے جمہوری تسلسل اور ادارہ جاتی اصلاحات کو ترجیح دیں تو ان کا اتحاد کامیاب ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر طاقت کی کشمکش جاری رہی تو تاریخ خود کو ایک بار پھر دہرا سکتی ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔