عمران خان کی وکالت کرنے والے سابق امریکی سفارتکار زلمے خلیل زاد کون ہیں؟

منگل 16 مئی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

امریکا میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی لابنگ کی کوششوں کے نتیجے میں سابق امریکی سفیر زلمے خیل زاد پاکستان کے سابق وزیرِاعظم عمران خان کے وکیل بن کر سامنے آئے ہیں۔ اپنے حالیہ بیانات میں وہ آرمی چیف عاصم منیر کے استعفے اور عالمی طاقتوں سے پاکستان میں ثالثی کروانے کا مطالبہ بھی کرچکے ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ زلمے خلیل زاد کون ہیں اور ان کی پاکستان اور عمران خان میں اس اچانک دلچسپی کے پس پردہ کیا وجوہات ہوسکتی ہیں؟

افغانستان کے شہر مزار شریف میں 1951 میں پیدا ہونے والے زلمے خیل زاد پہلی بار ہائی اسکول کے طالبعلم کے طور پر ایک ایکسچینج پروگرام پر امریکا آئے تھے۔ دوسری بار وہ بیروت سے ایم اے کرنے کے بعد امریکا آئے اور یونیورسٹی آف شکاگو سے پولیٹیکل سائنس میں پی ایچ ڈی کی۔

7 سال نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی میں پڑھانے کے بعد زلمے خیل زاد صدر ریگن کے دور میں 1985 میں امریکی وزارتِ خارجہ کا حصہ بن گئے۔ اپنے افغان پس منظر کی وجہ سے انہوں نے افغانستان میں جاری امریکا-روس جنگ میں ایک اہم کردار حاصل کرلیا۔ وہ روس سے لڑنے والے افغان مجاہدین کو براہِ راست امریکی اسٹنگر میزائل دینے کے پُرزور حامی تھے۔

پہلی افغان جنگ کے خاتمے پر وہ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ریپبلکن پارٹی کے حمایتی ایک تھنک ٹینک، رینڈ کارپوریشن کا حصہ بن گئے۔ عراق اور کویت جنگ کے دوران انہوں نے صدر جارج بش سینیئر کی حکومت میں بھی خدمات سرانجام دیں۔

90 کی دہائی کے وسط میں وہ دنیا بھر میں تیل کی تلاش کرنے والے ایک بڑے مگر متنازعہ امریکی کاروباری ادارے، یونوکول سے بطور مشیر وابسطہ ہوگئے۔ اسی دوران وہ امریکی محکمہ خارجہ کو بھی مشاورت فراہم کر رہے تھے۔

افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد یونوکول نے 1997 میں طالبان کے نمائندوں کو امریکا بلوایا اور ان کی امریکی انتظامیہ کے نمائندوں سے ملاقاتوں کا اہتمام کیا۔ اس دورے میں زلمے خیل زاد کے کردار پر امریکی میڈیا میں تنقید کی گئی اور انہیں افغانستان میں انسانی اور خواتین کے حقوق پر سمجھوتہ کرنے والا قرار دیا گیا۔

زلمے خیل زاد نے طالبان کے طرزِ زندگی کی حمایت کی تھی اور اسے ایران کی طرح کا روایتی نظام قرار دیا تھا۔ اپنی کمپنی کے نمائندے کے طور پر انہوں نے طالبان کے ساتھ افغانستان میں تیل اور گیس پائپ لائن کی تعمیر کے لیے کیے جانے والے مذاکرات میں بھی حصہ لیا تھا۔

اسی زمانے میں ایک امریکی اخبار نے لکھا کہ افغانستان سے تعلق ہونے کے باوجود زلمے خیل زاد عراق میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ مضمون میں اس کی وجہ عراق میں تیل کے ذخائر اور یونوکول سے زلمے خیل زاد کے وابستہ مفادات کو قرار دیا گیا۔

2001 میں 9/11 واقعے کے بعد زلمے خیل زاد ایک بار پھر صدر جارج بش جونیئر کی امریکی انتظامیہ کے قریب ہوگئے اور انہیں مشاورت فراہم کرنے لگے۔ انہیں اپنے افغان پس منظر کے باعث پہلے افغانستان اور پھر عراق میں سفیر تعینات کیا گیا۔

ان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ حامد کرزئی کی جگہ افغان صدر بننے کے امیدوار تھے مگر ان ک یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔ وہ امریکا کو جنگ میں جھونکنے والی ٹیم کے اہم رکن اور سابق امریکی وزیرِ دفاع ڈونلڈ رمزفیلڈ کے قریب سمجھے جاتے تھے۔ بش حکومت کے آخری 2 سال وہ اقوامِ متحدہ میں بھی امریکی نمائندہ رہے۔

اقوامِ متحدہ میں امریکی سفیر ہوتے ہوئے انہیں سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا جب 2008 میں یہ سامنے آیا کہ وہ پرویز مشرف کی جگہ صدر بننے والے آصف زرداری سے امریکی انتظامیہ کی مرضی کے بغیر رابطے کر رہے تھے۔ یاد رہے کہ اس وقت تک آصف زرداری باقاعدہ صدر بنے نہیں تھے۔

ستمبر2008 میں صدر زرداری سے دوبئی میں ہونے والی ایک ملاقات کا پلان انہیں منسوخ کرنا پڑا جب اس وقت کے نائب وزیرِ خارجہ رچرڈ باؤچر کے علم میں یہ بات آئی کہ زلمے خلیل زاد آصف زرداری کو بغیر اجازت مدد اور مشاورت فراہم کر رہے تھے۔

رچرڈ باؤچر نے زلمے خیل زاد کو ایک سخت ای میل کی اور اس بارے میں سوالات پوچھے۔ یہ معاملہ انتظامیہ کے دیگر افراد کے علم میں بھی لایا گیا۔ زلمے خیل زاد نے اپنے دفاع میں کہا کہ ان کے آصف زرداری سے دیرینہ تعلقات تھے اور رابطوں کی نوعیت دوستانہ تھی۔ تاہم انہیں ایسے رابطے رکھنے سے منع کردیا گیا۔

اس واقعے سے پہلے زلمے خیل زاد کو ایران کے وزیرِ خارجہ کے ساتھ سوئٹزرلینڈ میں ورلڈ اکنامک فورم میں ایک مذاکرے میں شرکت کرنے پر بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ زلمے خیل زاد نے ورلڈ اکنامک فورم میں شرکت کرنے والے امریکی وفد میں شمولیت کی درخواست کی تھی جسے مسترد کردیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ ایران کے ساتھ امریکا کے سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔

صدر باراک اوباما کے اقتدار میں آنے کے بعد زلمے خیل زاد کا دائرہ اثر محدود ہوگیا۔ انہوں نے غیر ملکی کلائنٹس کو کاروباری اور پبلک پالیسی کی مشاورت دینے کے لیے خیل زاد ایسوسی ایٹس کے نام سے اپنی ایک فرم بنا لی۔

اس دوران پاکستان کے حوالے سے ان کے خیالات کافی جارحانہ تھے۔ 2016 میں امریکی کانگریس کی کمیٹی میں گفتگو کرتے ہوئے زلمے خیل زاد نے پاکستان کو افغانستان میں بدامنی کا ذمہ دار اور دہشتگردی کی سرپرستی کرنے والی ریاست قرار دیا۔ اسی گفتگو میں انہوں نے پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی پر دہشتگردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام بھی عائد کیا۔ انہوں نے کانگریس کو ڈرون حملے بڑھانے، پاکستان کی امداد بند کرنے اور پاکستان پر مالی اور سفری پابندیاں لگانے کا بھی مشورہ دیا تھا۔

زلمے خیل زاد کی اہلیہ، شیرل برنارڈ، آسٹریا (Austria)سے تعلق رکھتی ہیں ۔ آسٹریا کی حکومت نے 2016 میں ان کے سات بینک اکاؤنٹس منجمد کر دیے جب تحقیقات کے دوران یہ سامنے آیا کہ زلمے خیل زاد نے عراق اور عرب امارات میں تیل نکالنے اورتعمیرات کرنے والی کمپنیوں سے خطیر رقوم وصول کیں اور انہیں اپنی اہلیہ کے بینک اکاؤنٹس میں منتقل کر دیا۔ مبینہ کرپشن اور منی لانڈرنگ کی مالیت کا تخمینہ 14 لاکھ ڈالر لگایا گیا اور یہ تحقیقات امریکی محکمہ انصاف کی درخواست پر شروع کی گئی تھیں۔

کئی برس گمنامی میں رہنے کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ میں افغان طالبان سے مذاکرات اور فوجوں کے انخلا کی منصوبہ بندی کے دوران انہیں دوبارہ منظرِعام پر آنے کا موقع ملا۔ صدر ٹرمپ کے مشیر برائے افغانستان کے طور پر انہوں نے طالبان سے فوجوں کے انخلا کا معاہدہ کیا۔ اس معاہدے پر امریکی سفارتی حلقوں اور میڈیا کی جانب سے سخت تنقید کی گئی کہ انہوں نے امریکی مفادات کا خیال نہیں رکھا۔

تاہم یہ عہدہ سنبھالتے ہی پاکستان کے بارے میں ان کے خیالات میں ڈرامائی تبدیلی آئی تھی۔ ایک تھنک ٹینک سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان نے امن قائم کرنے کے لیے ماضی میں کوئی مثبت کردار ادا نہیں کیا ہے لیکن حالیہ عرصے میں کچھ بہتر تبدیلی آئی ہے۔ پاکستان نے میری درخواست پر ملا برادر کو رہا کردیا۔ پاکستان نے طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات میں بھی کردار ادا کیا ہے۔ وہ متحارب گروہوں اور طالبان اور افغان حکومت کے درمیان بات چیت کی حمایت کرتے ہیں، پاکستان سے زیادہ کی توقع کرتے ہیں اور ان کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس وقت پاکستان میں عمران خان کی حکومت تھی۔

صدر جو بائیڈن نے اقتدار میں آنے کے بعد زلمے خلیل زاد کی مدتِ ملازمت میں اضافہ نہیں کیا گیا بلکہ کہا جاتا ہے کہ ان سے استعفیٰ لیا گیا۔ اگرچہ اس حوالے سے سرکاری تصدیق نہیں کی گئی۔ فوجوں کے انخلا کے باوجود ابھی تک امریکی میڈیا میں افغانستان میں بدامنی اور انسانی حقوق کی پامالی کا ذمہ دار زلمے خلیل زاد کے جلد بازی میں کیے گئے معاہدے کو قرار دیا جاتا ہے۔

امریکی سفارتی حلقوں میں زلمے خیل زاد تعلقات بنانے اور ان تعلقات کو اپنے ذاتی فائدے کے لیے استعمال کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ ٹرمپ کا مشیر مقرر ہونے کے بعد ایک امریکی پروفیسر، جینیفر وان برگن نے اپنے مضمون میں لکھا کہ زلمے خیل زاد کی تعیناتی کا مقصد امریکا اور یونوکول کے لیے تیل کا حصول ہے۔ یاد رہے کہ زلمے خیل زاد یونوکول کے لیے مشاورت اور لابنگ کرتے رہے تھے۔

ایک تجزیہ نگار ٹیڈ رال نے امریکی نشریاتی ادارے اے بی سی نیوز سے گفتگو میں کہا کہ زلمے خیل زاد خود کو امریکا میں تمام مسلم ممالک کے لیے رابطہ کار بنا کر پیش کرتے ہیں حالانکہ وہ اس کے اہل نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جارج بش اور ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ میں زلمے خیل زاد کی تعیناتی کی وجہ ان کی صلاحیتوں سے زیادہ امریکی انتظامیہ کی لاعملی تھی۔

زلمے خیل زاد اگرچہ اس وقت بھی اپنا ذاتی مشاورتی ادارہ چلا رہے ہیں مگر ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد امریکی میڈیا اور سفارتی حلقوں کی حد تک گوشہ گمنامی میں جاچکے تھے۔ ان کے ماضی سے واضح ہے کہ وہ اپنے ذاتی مفاد کے لیے رائے اور تعلقات بدلتے رہے ہیں اور اس کے لیے بسا اوقات محکمہ خارجہ کے قوانین کی بھی خلاف ورزی سے باز نہیں آئے۔

امریکی قوانین کے تحت کسی غیر ملکی کے لیے غیر اعلان شدہ لابنگ ایک جرم ہے۔ اگرچہ ان کی فرم نے ابھی تک باقاعدہ طور پر تحریک انصاف کو اپنا کلائنٹ بنانے کا اعلان تو نہیں کیا مگر اندازہ یہی ہوتا ہے کہ پاکستان کے سیاسی بحران میں زلمے خیل زاد ایک بار پھر اپنا فائدہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ پاکستان اور امریکا کے تعلقات عمران خان کے دورِ حکومت سے سردمہری کا شکار چلے آ رہے ہیں اور زلمے خیل زاد ممکنہ طور پر خود کو دونوں جانب ایک ثالث کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔

ایک سابق امریکی سفرتکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر زلمے خیل زاد کے حوالے سے ازراہ تفنن کہا کہ انہیں شاید مرکزِ نگاہ رہنے کی عادت ہوگئی ہے اور ریٹائرمنٹ کی زندگی میں بھی خود کو کسی نہ کسی طرح متعلقہ (relevant) بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

یہ ان کا خیال تو ہوسکتا ہے لیکن صدر جو بائیڈن کی حکومت میں ان کے ارادے کم از کم امریکا کی حد تک تو کامیاب ہوتے نظر نہیں آتے۔ پاکستانی میڈیا کے برعکس امریکی میڈیا میں بھی زلمے خلیل زاد کے سوشل میڈیا بیانات کو درخوراعتنا نہیں سمجھا گیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp