ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے القدس فورس کے سربراہ بریگیڈیئر جنرل اسماعیل قاآنی نے انکشاف کیا ہے کہ اکتوبر 2023 میں اسرائیل کے خلاف شروع کیا گیا آپریشن طوفانِ الاقصیٰ اتنے سخت خفیہ انتظامات کے تحت کیا گیا کہ نہ صرف مرحوم حماس رہنما اسماعیل ہنیہ بلکہ سید حسن نصراللہ بھی اس کے وقت سے لاعلم تھے۔
یہ بھی پڑھیں:حماس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے لیے تیار ہے، اسرائیل کا حماس کے بیان کے بعد ردعمل
جمعہ کو ایک ٹی وی انٹرویو میں جنرل قاآنی نے بتایا کہ جب آپریشن غزہ میں شروع کیا گیا، اس وقت ہنیہ عراق کے سفر کے لیے ایئرپورٹ جا رہے تھے اور واپسی پر ہی انہیں اس کی اطلاع ملی۔
ان کے مطابق اگرچہ کسی کو بھی پیشگی اطلاع نہیں دی گئی تھی، لیکن شہید سید حسن نصراللہ نے نہایت حکمت اور تدبر سے آپریشن کے مختلف مراحل کی نشاندہی کی تھی۔
قاآنی نے کہا کہ نصراللہ نے اپنی شہادت تک اسرائیل کے خلاف فوجی اور نفسیاتی محاذ پر غیر معمولی دانش اور استقامت کا مظاہرہ کیا۔
انہوں نے بتایا کہ ایک اہم دو ہفتے کے عرصے میں نصراللہ نے کوئی تقریر نہیں کی، لیکن اس خاموشی نے بھی صیہونی ریاست کو خوف میں مبتلا کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں:آپریشن الاقصیٰ فلڈ‘ ہر جگہ پہنچے گا، اسماعیل ہنیہ، جنگ طویل اور بے رحم ہوگی: نیتن یاہو
اسی دباؤ کے باعث اسرائیل کو اپنی فوج کا ایک تہائی حصہ جنوبی لبنان میں تعینات کرنا پڑا اور یوں جنگ کا نقشہ بدل گیا۔
جنرل قاآنی نے دعویٰ کیا کہ نصراللہ کی شہادت میں صرف بھاری بم ہی نہیں بلکہ کیمیائی مواد بھی استعمال کیا گیا، جو ایک واضح جنگی جرم ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حزب اللہ کے ڈرون اور میزائل حملے عالمی میڈیا میں کم رپورٹ ہوئے، حالانکہ صرف جنگ بندی کی اپیل سے دو دن قبل ہی حزب اللہ نے اسرائیل پر 350 سے زائد میزائل داغے، جن میں فوجی کیمپ، حیفا شہر اور یہاں تک کہ نیتن یاہو کی رہائش گاہ بھی شامل تھی۔
آخر میں قاآنی نے کہا کہ مزاحمت کی حکمتِ عملی فتح ہے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ ان کے مطابق آج حماس اور دیگر فلسطینی گروپ زیادہ طاقتور میزائل رکھتے ہیں اور اسرائیل تمام رکاوٹوں اور نقصانات کے باوجود اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔