سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کے نام ایک تنقیدی خط لکھا ہے جس میں انہوں نے عدلیہ میں مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) کے بطور فیصلہ کنندہ استعمال پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کی طرف سے لکھے گئے خط کی کاپیاں سپریم کورٹ کے تمام ججز کو بھی ارسال کی گئی ہیں۔
ذرائع کے مطابق یہ خط فل کورٹ میٹنگ کے بعد تحریر کیا گیا، جس میں عدلیہ کے نظام میں مصنوعی ذہانت کے ممکنہ کردار پر تفصیلی گفتگو ہوئی تھی۔
یہ بھی پڑھیے ایک طرف قانون، دوسری طرف بندوق، سب کو معلوم ہے آرڈرز کہاں سے آرہے ہیں، جسٹس سردار اعجاز
جسٹس اعجاز اسحاق خان نے اپنے خط میں کہا کہ دنیا بھر میں عدلیہ میں مصنوعی ذہانت کے استعمال پر بحث جاری ہے، مگر اس کے مخالفین کا مؤقف ہے کہ چونکہ AI programmable ہوتی ہے، اس لیے روبوٹ یا کمپیوٹر ججز اپنے فیصلوں میں خودمختار رائے قائم نہیں کر سکتے۔
انہوں نے لکھا کہ ایسے روبوٹ یا کمپیوٹر ججز کے فیصلے ہمیشہ ان پروگراموں کے تابع ہوں گے جو انہیں وقتاً فوقتاً فیڈ کیے جائیں گے، اور اس طرح وہ انسانی ضمیر، اخلاقی بصیرت اور آزادانہ عدالتی سوچ سے محروم رہیں گے۔
یہ بھی پڑھیے اسلام آباد ہائیکورٹ میں بینچز کی تبدیلی کو لے کر ججوں کے درمیان کیا تنازع چل رہا ہے؟
جسٹس اعجاز اسحاق خان نے خط میں انکشاف کیا کہ وہ ماضی میں اس مؤقف سے اتفاق نہیں کرتے تھے، تاہم فل کورٹ میٹنگ کے بعد ان کا نقطۂ نظر تبدیل ہو گیا ہے۔ اب وہ مصنوعی ذہانت کو عدلیہ میں بطور فیصلہ کنندہ استعمال کرنے کے مخالفین کے ساتھ متفق ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ اس معاملے پر جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز کی اختلافی آراء سے بھی اتفاق کرتے ہیں۔
عدالتی ذرائع کے مطابق اس خط نے اعلیٰ عدلیہ کے اندر ایک نئی فکری بحث کو جنم دے دیا ہے، جس میں یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا مصنوعی ذہانت کو انصاف کے عمل میں شامل کیا جانا چاہیے، اور اگر ہاں تو انسانی عدالتی خودمختاری کو کیسے برقرار رکھا جائے۔