پاکستان کی جی ڈی پی 400 ارب ڈالر کراس کرتے ہوئے 2025 میں 411 ارب ڈالر ہو گئی ہے۔ یہ اعدادوشمار ایشین ڈویلپمنٹ بنک کے ہیں۔ 411 ارب ڈالر جی ڈی پی کے ساتھ پاکستانی معیشت رینکنگ میں 43 ویں نمبر پر ہے۔ یہ رینکنگ آئی ایم ایف کے ایسٹیمیٹس کے مطابق ہے جس نے پاکستان کو 250 سے 500 ارب ڈالر جی ڈی پی رکھنے والے ملکوں کے بریکٹ میں رکھا ہوا ہے۔
پاکستان نے 2028 تک ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کو مکمل کرنا ہے۔ ادائیگیوں، ٹیکس اور گورننس کا نظام ڈیجیٹل کیا جانا ہے۔ بنکنگ سسٹم اور ادائیگیوں کا سسٹم کافی حد تک ڈیجیٹل کر لیا گیا ہے۔ جون 2026 تک تمام سرکاری ادائیگیوں کو بھی ڈیجیٹل کر دیا جائے گا۔ گورنمنٹ ٹو پرسن اور پرسن ٹو گورنمنٹ دوںوں ادائیگیاں ڈیجیٹل ہو جائیں گی۔
پاکستان کی غیر دستاویزی معیشت کا سائز 40 سے 50 فیصد ہے۔ دل خوش کرنے کو 50 فیصد کا حساب کرتے ہیں۔ 50 فیصد غیر دستاویزی معیشت اگر دستاویزی ہو جاتی ہے تو جی ڈی پی کا سائز 616 ارب ڈالر ہو جائے گا۔ ہماری رینکنگ بیٹھے بٹھائے تبدیل ہو جائے گی اور پاکستان 500 سے 750 ارب ڈالر والے بریکٹ میں آ جائے گا جس میں ناروے جیسے مضبوط معیشت کے ملک شمار ہوتے ہیں۔
دل کو اتنا بھی خوش نہ کریں عالمی مالیاتی اداروں کا اندازہ ہے کہ 2035 تک 150 سے 180 ارب ڈالر تک پاکستانی معیشت میں شامل ہو سکتے ہیں۔یہ حساب 2028 میں معیشت کے مکمل طور پر ڈیجیٹل ہو جانے کے بعد سے لگایا گیا ہے۔ یعنی 7 سال میں ہر سال 20 ارب ڈالر کے لگ بھگ اضافہ، اسیں مر نہ جائیے اعتبار کر کے۔ پھر بھی اللہ کرے ایسا ہی ہو اور اس سے بھی پہلے ہو۔
آسان بھاشا میں اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانی معیشت کے حوالے سے سارے اعدادو شمار ہی بدلنے جا رہے ہیں۔ نہ گروتھ ریٹ یہ رہے گا، نہ جی ڈی پی سائز یہ رہنا ہے۔ نہ قرض اور جی ڈی پی کا تناسب یہ رہنا ہے۔ یہ سارے انڈیکیٹرز بہت بہتر ہو جانے ہیں۔ معیشت کی اصل پکچر سامنے آئے گی جو موجودہ حالت سے بہت مختلف اور بہتر ہو گی۔ اس سے اگر کسی کو یہ وہم ہو رہا ہے کہ خدانخواستہ عام آدمی کی حالت میں کوئی بہتری آنی ہے تو جواب ہے کہ نہیں۔ معیشت کا جو سانس اٹکا ہوا تھا وہ ضرور بحال ہو جائے گا۔
اب تک ڈیجیٹل معیشت کے حوالے سے پرسن ٹو پرسن ادائیگیوں کا نظام، پرسن ٹو مرچنٹ ادائیگی، گورنمنٹ ٹو پرسن اور پرسن ٹو گورنمنٹ ادائیگی کے سسٹم ڈیجیٹل ہوتے جا رہے ہیں۔ کیش کے ذریعے ادائیگیوں میں بڑی کمی آئی ہے۔ اس ڈیجیٹل اکانومی کی طرف شفٹ کو عام آدمی باقاعدہ محسوس کر رہا ہے۔ بڑی ادائیگیوں کے لیے وہ بنکوں کو ثبوت فراہم کرتے باقاعدہ رُلتا دکھائی دیتا ہے۔ دوسری جانب پرانے سے نئے ڈیجیٹل سسٹم کی جانب منتقل ہوتے حکومتی ڈیٹا بھی اوپر نیچے ہو رہا ہے۔ تجارتی ریکارڈ میں 11 ارب ڈالر کا فرق اس کی ایک مثال ہے۔
ڈیجیٹل اکانومی کی طرف جاتے ابھی بہت لطیفے ہوں گے۔ ڈیجیٹل انفراسٹرکچر بنانا اور بہتر کرنا پڑے گا۔ ابھی تک عام صارف کا زیادہ انحصار موبائل نیٹ پر ہے جبکہ فکس نیٹ اور فائبر آپٹک کا نیٹ ورک زیر تعمیر ہے۔ ادائیگیاں ڈیجیٹل ہونے سے باڈر سے ہونے والی غیر دستاویزی معیشت بھی نیٹ میں آ رہی ہے۔ راڈار میں آنے کے بعد اس پر ٹیکس بھی لگے گا اور اس کو ریگولرائز بھی کیا جا سکے گا۔
آپ تصور کریں کہ آپ اپنا بجٹ 10ہزار کے حساب سے بنا رہے ہیں اور آپ کو پتہ لگے کہ آپ کے پاس تو 15ہزار ہیں۔ ایک لاکھ نہیں ڈیڑھ لاکھ ہیں۔ لوگوں کو ابھی ڈیجیٹل اکانومی کی سمجھ نہیں آئی۔ سیٹھ لوگ سمجھ گئے ہیں اور اسٹاک مارکیٹ دل کھول کر سٹہ لگا کر اپنا جی خوش کر رہے ہیں۔
اس بدلتی صورتحال کا اثر ہماری سیاست پر بھی دکھائی دے رہا ہے۔ پی پی اور مسلم لیگ نون میں لڑائی کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سیٹھ سمجھ جائے اور پی پی والے نہ سمجھیں۔
2024 میں الیکشن کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے حکومت کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کرتے ہوئے وزارتیں لینے سے گریز کیا۔ آئینی عہدوں پر اکتفا کیا۔ پی پی کے اس فیصلے کی وجہ یہ تھی کہ سخت معاشی حالات مہنگائی کے بعد عوامی ردعمل یقینی تھا جس سے پی پی بچنا چاہ رہی تھی۔ پالیسی دیسی سائنس کے عین مطابق تھی کہ کھانے پینے کو بھاگ بھری اور چھتر کھانے کو جمعہ۔ یہاں جمعہ سے مراد پٹواری کر لیں۔
اب پیپلز پارٹی کا اندازہ ہے کہ اس نے بس مس کر دی ہے۔ آنے والے سال ڈیڑھ میں معاشی اعدادوشمار تبدیل ہونے والے ہیں۔ سرمایہ کاری کی ڈیل میچور ہونے لگیں گی، معاشی صورتحال میں بہتری دکھائی دینے لگے گی۔ پیپلز پارٹی غیر متعلق ہوتی جائے گی۔ پاکستان مسلم لیگ کا مزاج ہی نہیں ہے کہ وہ کریڈٹ میں کسی کو شریک کرے۔ اس لیے آج کل جیالوں کا پٹواریوں کے ساتھ پٹ سیاپا چل رہا ہے۔
پی ٹی آئی والوں کا اس سب میں کچھ لینا دینا دکھائی نہیں دے رہا۔ یہ ڈیجیٹلائزیشن کا عمل 2018 میں شروع ہوا تھا۔ کپتان کے چاہنے والے دل چھوٹا بڑا نہ کریں، سوہنا اندر بیٹھا بڑی گیم لگا رہا ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔