22 نومبر کو عمران خان کی رہائی یقینی تھی، مگر ان کے نادان دوستوں نے ایسا نہیں ہونے دیا، مشاہد حسین سید کا انکشاف

بدھ 8 اکتوبر 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان تحریکِ انصاف کے بانی اور سابق وزیرِاعظم عمران خان کی گرفتاری کو 2 سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، اور ان کی رہائی کے حوالے سے مختلف قیاس آرائیاں اور دعوے سامنے آتے رہے ہیں۔ اس دوران تحریکِ انصاف کے کارکنان اور رہنما مسلسل یہ سوال اٹھاتے نظر آتے ہیں کہ عمران خان کب رہا ہوں گے، اور ان کی غیر موجودگی میں پارٹی کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا۔

حال ہی میں سینیٹر مشاہد حسین سید نے اس حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ 5 نومبر کو ٹرمپ صدر منتخب بن گئے تو 10 نومبر کو اسٹبلشمنٹ نے عمران خان کی رہائی کے مذاکرات شروع کر دیے۔ 22 نومبر کو عمران خان رہا ہونے والے تھے مگر ان کے نادان دوستوں نے کہا کہ 26 نومبر کو 10 لاکھ لوگ آ رہے ہیں سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اور پھر جو ہوا سب کے سامنے ہوا۔

اس پر تبصرہ کرتے ہوئے صحافی منیب فاروق نے لکھا کہ مشاہد حسین صاحب تو یہ بھی فرماتے تھے کہ ٹرمپ آئے گا اور ایک فون کال آئے گی اور سب سیدھے ہو جائیں گے۔ نہ کال آئی نہ ہی کوئی ڈیمانڈ۔ بلکہ کام ہی الٹا ہو گیا۔ آج بھی انھوں نے ایک کہانی پیش کی ہے۔ سننے والوں کے لئے کہانی اچھی بنائی ہے لیکن اس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان کی رہائی کے لیے ڈیڈلائن میں 2 دن باقی، رہائی نہ ہوئی تو کیا علی امین گنڈاپور وزارت اعلیٰ چھوڑ دیں گے؟

ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکی صدر ٹرمپ کے آنے سے پہلے اور بعد عمران خان صاحب کے حوالے سے ریاستی پالیسی میں کوئی فرق نہ ہے نہ تھا۔ نہ کسی نے مذاکرات کئے نہ کوئی آفر ہوئی۔ یہ کہانی ان تمام کہانیوں میں سے ایک ہے جس میں خان صاحب کو آفرز کی باتیں کی جاتی رہی ہیں۔

منیب فاروق نے مزید لکھا کہ عمران خان صاحب کو آج تک صرف ٹرک کی بتی ہی دکھائی گئی ہے اور ظلم یہ ہے کہ وہ بھی چند خود ساختہ پیغام رسانوں نے دکھائی ہے۔ مستقبل کا پتا نہیں لیکن آج بھی زمینی حقائق وہی ہیں جو پہلے تھے۔

پی ٹی آئی کے حامی ایک سوشل میڈیا صارف کا کہنا تھا کہ مشاہد حسین سید غلط بیانی کر رہے ہیں۔ عمران خان کی رہائی کا کوئی منصوبہ نہيں تھا۔

یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائی کے لیے 24 نومبر کو بانی کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی سربراہی میں پی ٹی آئی کے حامیوں نے پشاور سے اسلام آباد کی جانب مارچ شروع کیا تھا اور 25 نومبر کی شب وہ اسلام آباد کے قریب پہنچ گئے تھے

تاہم اگلے روز اسلام آباد میں داخلے کے بعد پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ پی ٹی آئی کے حامیوں کی جھڑپ کے نتیجے میں متعدد افراد، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار زخمی ہوئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: میری قید کے دوران فیملی اور بہنوں کے خلاف مہم تکلیف دہ ہے، عمران خان کا جیل سے پیغام

26 نومبر کی شب بشریٰ بی بی، علی امین گنڈاپور اور عمر ایوب مارچ کے شرکا کو چھوڑ کر ہری پور کے راستے مانسہرہ چلے گئے تھے، مارچ کے شرکا بھی واپس اپنے گھروں کو چلے گئے تھے۔

واضح رہے کہ عمران خان کو 5 اگست 2023 کو پہلی بار حراست میں لیا گیا تھا۔ ان کے خلاف درجنوں مقدمات درج ہیں، جنہیں وہ سیاسی انتقام قرار دیتے ہیں۔ جنوری میں انہیں بدعنوانی کے ایک مقدمے میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ سزا سنائی گئی، جس کے تحت عمران خان کو 14 سال اور ان کی اہلیہ کو 7 سال قید کی سزا دی گئی تھی۔ عمران خان ان مقدمات کو سیاسی انتقام قرار دیتے ہوئے مسلسل مسترد کرتے آئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: جیل سے رہائی کے بعد شاہ محمود قریشی عمران خان کی جگہ لے سکتے ہیں؟

تحریکِ انصاف کی جانب سے بھی بارہا یہ مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ عمران خان کو ایک منظم سازش کے تحت سیاست سے باہر رکھا جا رہا ہے۔ پارٹی ترجمانوں کے مطابق عمران خان کو قانونی نہیں بلکہ سیاسی بنیادوں پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

پاک فوج پوری قوم کے تعاون سے ہر خطرے کا ڈٹ کر مقابلہ کرے گی ، ڈی جی آئی ایس پی آر

روسی تیل خریدنے پر پابندیاں، ریلائنس انڈسٹریز کا معاہدوں پر ازسرِنو غور

خواتین جم کرتے کیا غلطیاں کرتی ہیں؟ تمنا بھاٹیا کے کوچ نے بتا دیا

کوئٹہ میں پولیس پارٹی پر فائرنگ کا واقعہ، جوابی کارروائی میں 3 ملزمان ہلاک

ممبئی جارہے ہو تو میراٹھی بولنی پڑے گی، انڈیا میں دوران پرواز لسانی تنازع شدت اختیار کرگیا

ویڈیو

سعودی عرب میں پاکستانی طلبا کے لیے کونسی اسکالرشپس دستیاب ہیں؟

کراچی میں کتنے کیمرے لگے ہیں، اگر کیمروں نے کام کرنا چھوڑ دیا تو چالان کیسے ہوگا؟

ٹی ایل پی پر پابندی، رضوی برادران مشکل میں، حیران کن شواہد سامنے آگئے

کالم / تجزیہ

سوات کا فرمان علی خان جس نے جدہ میں اپنی جان دے کر 14 زندگیاں بچائیں

پولیس افسران کی خودکشی: اسباب، محرکات، سدباب

آو کہ کوئی خواب بُنیں کل کے واسطے