وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کی زیر صدارت منعقدہ صوبائی کابینہ کے اجلاس میں اہم فیصلے کیے گئے ہیں۔
اجلاس نے بلوچستان پبلک پروکیورمنٹ رولز 2014 کے رول 56-A کے تحت پروکیورمنٹ جائزہ کمیٹی کی بحالی، پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی تعیناتی سے متعلق سرچ کمیٹی کی سفارشات کی منظوری دی۔ ان یونیورسٹیوں میں بولان یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز، خضدار یونیورسٹی آف انجینئرنگ اور لورالائی یونیورسٹی شامل ہیں۔
صوبائی کابینہ نے آئی ٹی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی نامزدگی کا معاملہ پارلیمانی کمیٹی جب کہ میر چاکر یونیورسٹی سبی کے وائس چانسلر کی نامزدگی کامعاملہ دوبارہ سے سرچ کمیٹی کے سپرد کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ کابینہ نے بلوچستان چائلڈ ریسٹرینٹ بل 2023 کی منظوری دے دی جس میں 18 سال سے کم عمر بچوں کی شادیوں کی ممانعت ہوگی۔
کابینہ نے جیڈا کے 37 کنٹریکٹ ملازمین کی مستقلی، بلوچستان کی پہلی سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز SME ڈویلپمنٹ حکمت عملی، ضلع آواران میں جی او آر کالونی کی تعمیر سے متعلق تخمینہ لاگت کو بڑھانے، کڈنی سینٹر کوئٹہ کے لیے نئے ترقیاتی منصوبوں کے نظر ثانی شدہ پی سی ون، دور رویہ مشرقی بائی پاس کوئٹہ کے ترقیاتی منصوبے کے ترمیم شدہ پی سی ون ، 18 ویں ترمیم کے تحت پی ایم ڈی سی کو دی گئی لیز ز کو واپس لینے، بلوچستان لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2010 کے ایکٹ 5 میں نئے سیکشن 24 اے کو شامل کرنے اوربلوچستان بورڈ آف انویسٹمنٹ اینڈ ٹریڈ کے بورڈ آف ڈائر یکٹرز کی تشکیل کی منظوری دے دی۔
بلوچستان کی مالی معاونت نہ کرنے پر مایوسی کا اظہار
اجلاس کے دوران کابینہ نے وفاقی حکومت کی جانب سے بلوچستان کو مالی معاونت کی عدم فراہمی پر شدید مایوسی کا اظہار کیا۔ کابینہ اجلاس میں موقف اختیار کیا گیا کہ وزیراعظم محمد شہباز شریف بلوچستان کے لیے نرم گوشہ ضرور رکھتے ہیں۔ وزارت منصوبہ بندی اور وزارت خزانہ کا بلوچستان کے ساتھ رویہ ناقابل فہم ہے۔ وفاقی اداروں کا رویہ بلوچستان کی پسماندگی اور عوام میں مایوسی کا سبب بن رہا ہے۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ صوبائی حکومت وفاقی اداروں کے رویہ پر بھرپور احتجاج ریکارڈ کرائے گی۔ وزیراعلیٰ کی قیادت میں صوبائی پارلیمانی جماعتوں کے قائدین، صوبائی وزرا، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے بلوچستان سے اراکین پر مشتمل وفد وزیراعظم سے ملاقات کرے گا۔
اجلاس میں موقف اختیار کیا گیا کہ وفاق کی ایک مضبوط اکائی ہونے اور این ایف سی کے شیئر کو آئینی تحفظ حاصل ہونے کے باوجود بلوچستان کو اس کا پورا حصہ نہیں دیا جا رہا ہے۔ فنڈز کی کمی سے جاری ترقیاتی عمل متاثر ہو رہا ہے۔ اگر صورتحال میں بہتری نہ آئی تو تنخواہوں کی ادائیگی بھی ممکن نہیں ہو گی۔
وفاقی محکمے معروضی حالات اور مشکلات سے لاعلم ہیں: صوبائی کابینہ
صوبائی کابینہ نے کہا کہ صوبے این ایف سی کے اپنے شیئر کے مطابق بجٹ بناتے ہیں لیکن غیر متوقع کٹوتی سے بجٹ پر عملدرآمد ممکن نہیں ہوتا۔ وفاقی محکمے بلوچستان کے معروضی حالات اور مسائل و مشکلات سے لاعلم ہیں۔ وفاقی منصوبوں کے لیے صوبائی حکومت 5 ارب روپے کی برج فنانسنگ کر چکی ہے۔ یہ منصوبے وفاق کی جانب سے فنڈز کا اجرا نہ ہونے کے باعث تعطل کا شکار ہیں۔
سیلاب متاثرین کے لیے اعلان کردہ 10 ارب بھی نہیں مل سکے: وزیر اعلیٰ
اجلاس میں وزیر اعلی بلوچستان میر عبد القدوس بزنجو نے کہا کہ وزیراعظم کی جانب سے سیلاب کے دوران اعلان کردہ 10 ارب روپے بھی تاحال جاری نہیں ہوئے۔ صوبائی حکومت نے اپنے وسائل سے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی کا کام کیا۔ کابینہ نے پی پی ایل کے رویہ پر بھی شدید برہمی کا اظہار کیا۔
اجلاس میں موقف اختیار کیا گیا کہ 2019 سے پی پی ایل سوئی مائننگ لیز کے بلوچستان کے اربوں روپے کے واجبات کی ادائیگی میں ٹال مٹول کر رہی ہے۔ صوبائی حکومت اور پی پی ایل حکام کے درمیان متعدد اجلاس بھی ہوئے۔ پی پی ایل کے منفی رویہ کے باعث اس دیرینہ مسلئہ کا حل نہیں نکل سکا ہے۔ پی پی ایل کے اس رویہ اور تاخیری حربوں کو مزید برداشت نہیں کیا جائے گا۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پی پی ایل کے واجبات کے حصول کے لیے صوبائی حکومت جلد حتمی اور دو ٹوک فیصلہ کرے گی۔
اس موقع پر وزیر اعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ بلاشبہ بلوچستان کی ترقی وفاق کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ ہماری شروع دن سے کوشش رہی ہے کہ وفاقی حکومت سے بہترین تعلقات قائم کرتے ہوئے وفاق کی معاونت کا حصول یقینی بنایا جائے۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ ہم اب تک اپنے اس مقصد میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکے۔ وزیراعظم کی جانب سے بلوچستان کی ترقی میں خصوصی دلچسپی کے باوجود ان کے احکامات پر من وعن عملدرآمد نہیں ہو رہا۔