اسلام آباد میں چھینے جانے والے موبائل فون کہاں جاتے ہیں؟

منگل 16 مئی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

دو ماہ قبل اسلام آباد کے سیکٹر جی 13 میں حسنین عباس  اپنی ہمشیرہ اور کزنز کے ہمراہ گھر کے باہر چہل قدمی کر رہے تھے کہ اچانک کہیں سے دو مسلح موٹرسائیکل سوار نمودار ہوئے اور ان کا موبائل فون چھیننے لگے جس پر انہوں نے مزاحمت کی اور ڈاکوؤں کی فائرنگ کا نشانہ بن گئے۔ شہر اقتدار میں چھینا جھپٹی کی کارروائیوں میں آئے روز غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے اور عدم تحفظ کا احساس اس قدر بڑھتا جا رہا ہے کہ اب شہری قیمتی اشیا اور مہنگے موبائل فون لے کر گھر سے باہر نکلنے پر ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔

 وی نیوز نے کئی افراد سے گفتگو کی جو گزشتہ چند ماہ کے دوران ڈاکوؤں اور اچکوں کے ہاتھوں اپنے مہنگے موبائل فون گنواچکے ہیں جب کہ اس حوالے سے رابطہ کرنے پر ترجمان اسلام آباد پولیس کا کہنا تھا کہ موبائل فون چھیننے کی وارداتیں نہیں بڑھیں بلکہ رپورٹ ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب آپ کہتے ہیں کہ وارداتیں بڑھ رہی ہیں تو اس کا کوئی تقابلی جائزہ ہونا چاہیے۔ ہر واقعہ جو پولیس کو رپورٹ ہوتا ہے اس کی ایف آئی آر درج ہوتی ہے اور متعدد موبائل فونز کی ریکوری ہوچکی ہیں جبکہ کچھ گینگز بھی پکڑے جاچکے ہیں۔

کوئی بہت پرانی نہیں بلکہ ایک آدھ سال پہلے کی ہی بات ہے کہ ملک کے چند بڑے شہروں سے آنے والے افراد اسلام آباد کی گلیوں اور سڑکوں پر لوگوں کو آزادانہ طور پر مہنگے موبائل فون استعمال کرتے دیکھتے تو شہر اقتدار میں میسر محفوظ ماحول پر رشک کا اظہار کرتے لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ یہاں ڈاکوؤں کے ہاتھوں نہ شہریوں کا مال اس طرح محفوظ رہا ہے اور نہ ہی جان۔

وی نیوز کو اپنی روداد سناتے ہوئے سیکٹر آئی 10 کے رہائشی 25 سالہ عبدالقادر نے بتایا کہ 2 ہفتے قبل وہ شام کے تقریبا 7 بجے سیکٹر کے مرکز سے اپنے گھر کی جانب پیدل جا رہے تھے کہ اچانک ایک موٹرسائیکل پر سوار 3 افراد آئے اور موبائل ان کے ہاتھ سے چھین کر بھاگ نکلے۔ انہوں نے کہا کہ ’موٹر سائیکل کی رفتار اتنی تیز تھی کہ میں ان کی شکلیں نہیں دیکھ سکا جب کہ اس وقت دماغ بھی ماؤف سا تھا اس لیے موٹرسائکل کا نمبر بھی نوٹ نہیں کرسکا‘۔

’مجھے پولیس سے زیادہ توقع نہیں‘

عبدالقادر کا کہنا تھا کہ ان کا موبائل کافی قیمتی تھا جو انہوں نے حال ہی میں خریدا تھا اور اس سے محروم ہونے کے بعد انہوں نے متعلقہ تھانے میں ایف آئی آر بھی درج کروائی لیکن اب تک پولیس کی جانب سے کوئی مثبت اطلاع نہیں ملی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پولیس کی جانب سے فی الحال انتظار کرنے کا ہی کہا جا رہا ہے لیکن مجھے زیادہ توقع نہیں کہ پولیس میرا موبائل فون برآمد کرپائے گی‘۔

شہر میں موبائل چھینے جانے کی بڑھتی واراداتوں کے حوالے سے وی نیوز نے جب اسلام آباد پولیس کے ترجمان تقی جواد بلوچ  سے رابطہ کیا تو انہوں نے مذکورہ اضافے کی تصدیق کی اور اس کی وجہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ اسلام آباد میں کچھ چھوٹے چھوٹے افغان گروہ موجود ہیں جوعموما اس طرح کی وارداتوں میں ملوث ہوتے ہیں‘۔

’فون چھیننے والا افغانی لڑکا لگتا تھا‘

ضیاء مسجد کے رہائشی علی رحمٰن کہتے ہیں کہ تقریبا 3 مہینے قبل اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان پیر ودھائی کے مقام پر  انہوں نے گاڑی روک کر موبائل فون پر کسی سے بات شروع کی۔ وہاں ان کی نظر ایک 17 سالہ لڑکے پر پڑی جو  ان کے بقول افغان لگتا تھا اور گاڑی کے آس پاس منڈلا رہا تھا اور پھر چند ہی منٹوں میں وہ تیزی سے گاڑی کے اگلے دروازے کے پاس آیا اور اندر ہاتھ بڑھا کر تیزی سے فون جھپٹ کر بھاگ کھڑا ہوا۔

52 سالہ علی رحمٰن نے کہا کہ وہ اس لڑکے کے پیچھے بھاگے لیکن وہ اس قدر تیز دوڑ رہا تھا کہ وہ اس کا مقابلہ نہ کرسکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’وہ لڑکا بھاگتے ہوئے نزدیک کی ایک بستی میں جا گھسا اور اس کی تنگ گلیوں میں کہیں گم ہوگیا اس وجہ سے بھی وہ اسے پکڑ نہیں پائے۔

پولیس کہتی ہے لوگ ایف آئی آر نہیں کٹواتے، شہری تھانوں کے بیچ شٹل کاک بننے اور عدم کارروائی کی شکایت کرتے ہیں

اسلام آباد پولیس کے ترجمان تقی جواد بلوچ نے شکایت کی کہ فون چھن جانے پر اکثر لوگ تھانوں میں جانے سے گریز کرتے ہیں اور واقعے کی ایف آئی آر  درج نہیں کرواتے۔

پولیس کے شکوے کے مقابلے میں علی رحمٰن کی شکایت بالکل الٹ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ موبائل چھن جانے کے فوری بعد جب وہ پاس ہی واقع اسلام آباد کے ایک تھانے میں گئے تو وہاں کے اہلکاروں نے انہیں راولپنڈی کے تھانے سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا اور جب وہ جائے واردات کے قریبی راولپنڈی کی حدود کے تھانے گئے تو وہاں انہیں واپس پہلے والے تھانے جانے کا کہا گیا الغرض چند دنوں کی دوڑ بھاگ کے بعد  تنیجہ یہ نکلا کہ کیس درج کرانے والا ’مقدمہ‘ اسلام آباد پولیس جیت گئی اور راولپنڈی والے تھانے نے ان کی ایف آئی آر درج کرلی۔

گو ایسا چند ہی کیسز میں ہوتا ہوگا لیکن پھر علی رحمٰن نے ایک اور شکایت کی جو بہت عام ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ موبائل چھننے کے ایک ماہ تک تو وہ ’اپنے موبائل فون کی بازیابی کے لیے‘ بڑی تندہی سے تھانے کے چکر کاٹتے رہے لیکن نتیجہ صفر رہا اور اب تو اس واقعے کو پورے 3 ماہ گزرچکے ہیں لیکن ’موبائل کا کہیں پتا نہیں‘۔

لٹیروں کے ہاتھوں اپنے قیمتی موبائل فونز سے محروم ہونے والے افراد کا ایک عام شکوہ یہ ہے کہ اول تو ان کی شکایت تھانے میں درج ہی نہیں کی جاتی اور اگر قسمت سے درج ہو بھی جائے تو اس پر کوئی کارروائی سامنے نہیں آتی۔

واک میں مصروف کئی افراد بیک وقت لوٹ لیے گئے

گزشتہ چند ماہ کے دوران جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں لٹنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد سامنے آئی ہے اور ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جو ایک ساتھ ایک ہی جگہ پر لوٹ لیے گئے۔ مارچ کے مہینے میں 7 اور 8 تاریخ کی درمیانی شب سیکٹر جی 13 میں ڈاکوؤں نے پارک میں واک کرنے والے 6 افراد کے موبائل چھین لیے تھے۔

سیکٹر جی 8 کے رہائشی حارث کا کہنا ہے کہ وہ اور ان کے دوست گھر کے باہر گلی میں کھڑے ہوکر ایک تیسرے دوست کا انتظار کر رہے تھے کہ اس سے پہلے ہی 2 بائیکس پر 4 نامعلوم افراد آئے پہنچ گئے اور ان دونوں کے فون لے کر چلتے بنے۔ ان کا کہنا تھا کہ جاتے جاتے موٹرسائیکل سواروں نے چند ہوائی فائر بھی داغے تاکہ کوئی ان کا پیچھا کرنے کے بارے میں نہ سوچ بیٹھے۔

محمد شہریار کا تعلق جی 11 سے ہے۔ ان کے مطابق 2 موٹرسائیکل سوار ان کا موبائل فون 20 روز قبل جی 11 مرکز  سے چھین کر فرار ہوگئے تھے۔

ہر کوئی راہل جتنا خوش نصیب نہیں ہوتا

35 سالہ راہل بشارت بھی ڈاکوؤں کے نرغے میں پھنس گئے تھے اور اپنا موبائل فون تقریباً گنوا ہی بیٹھے تھے کہ ان کی قسمت کام کرگئی اور ان کا فون بچ گیا۔ ہوا کچھ یوں کہ راہل اسلام آباد کی طرف آنے کے لیے سری نگر ہائی وے سے کچھ فاصلے پر سواری کا انتظار کر رہے تھے۔ اس دوران انہوں نے ایک وائس نوٹ سننے کے لیے موبائل فون ابھی کان پر لگایا ہی تھا کہ اچانک ایک موٹر سائیکل پر دو افراد آئے اور ان کا فون چھیننے کی کوشش کی۔

راہل کا کہنا تھا کہ ’ان میں سے ایک نے میرا فون کھینچنے کی پوری کوشش کی مگر یا تو وہ اناڑی تھا یا پھر میں نے موبائل کو اتنی مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا کہ وہ چھین نہیں سکا اور پھر میری خوش نصیبی رہی کہ وہ موٹرسائیکل سوار خالی ہاتھ بھاگ کھڑے ہوئے‘۔

انہوں نے مزید بتایا کہ جس جگہ ان کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا ٹھیک اس سے  تھوڑا پہلے این ایچ  اے اور تھوڑا آگے اسلام آباد پولیس کی چوکی تھی۔ انہوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ اس جگہ سے ان چوکیوں کا فاصلہ نہ ہونے کے برابر تھا لیکن پھر بھی وہاں ایسی واردات کی ہمت کیسے کی گئی‘۔

چھینے گئے زیادہ تر موبائل فونز کی لوکیشن افغانستان کی آتی ہے

ایک شہری افرسیاب نے بتایا کہ ان کا موبائل فون کشمیر ہائی وے پر چھینا گیا اور پھر جب انہوں نے اپنے فون سیٹ کی لوکیشن چیک کی تو پتا چلا کہ وہ افغانستان میں موجود ہے۔

اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے اسلام آباد پولیس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ جب ان چھینے گئے موبائل فونز کی لوکیشن چیک کی جاتی ہے تو ان میں سے زیادہ تر کی موجودگی افغانستان میں پائی جاتی ہے۔

تقی جواد بلوچ نے کہا کہ عموماً خاصے قیمتی موبائل فون چھینے جاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ چھینے گئے موبائل فونز کے پرزے نکال کر بھی بیچ دیے جاتے ہیں۔

ترجمان پولیس کا دعویٰ تھا کہ چھینے گئے موبائل فون یوں مارکیٹ میں فروخت نہیں کیے جاتے کیوں کہ کسی بھی دکاندار کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ کسی سے شناختی کارڈ کی کاپی لیے بغیر سیل فون خرید لے اور ایسا کرنے پر وہ گرفتار ہوسکتا ہے۔

ہوسکتا ہے اسلام آباد پولیس کے اعلیٰ افسران ان دنوں شہر کی سیاسی صورتحال کے باعث دباؤ کا شکار ہوں جس کی وجہ سے شہر میں لوٹ مار کی بڑھتی وارداتوں پر قابو نہ پاسکنے کو معمولی بات سمجھا جا رہا ہو لیکن یہاں بے بس شہریوں کے علاوہ بااثر غیر ملکیوں کی بھی ایک بڑی تعداد موجود ہوتی ہے اور اگر کہیں جرائم پیشہ افراد کے ہاتھ ان کی جان و مال تک بھی پہنچنےلگے تو دنیا میں اس کا برا میسج جائے گا۔ لہٰذا پولیس کو چاہیے کہ وہ دارالخلافے میں اپنی رٹ قائم رکھنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp