غزہ کے اس لڑکے کا نام عمر یاغی تھا۔
پیدا ہوا تو آس پاس سب کچھ عارضی تھا۔ گھر بھی، پانی بھی، بجلی بھی، امید بھی۔
کیمپ کے خیموں میں رہنے والے بچے عموماً بڑے نہیں ہوتے، بس پرانے ہو جاتے ہیں۔
لیکن یہ لڑکا ضدی تھا۔
اس نے کہا ’اگر میرے حصے میں زمین نہیں آئی، تو میں آسمان میں جگہ بناؤں گا۔‘
ماں پانی کے لیے قطار میں لگتی، باپ مزدوری کے لیے۔
اور عمر کسی ٹوٹی بوتل میں بارش کا پانی جمع کرتا، جیسے کوئی خزانہ ہو۔
پھر کہتا، ’ایک دن میں ہوا سے پانی نکالوں گا۔‘
لوگ ہنستے۔
کہ مہاجر کیمپ میں خواب دیکھنا بھی جرم سمجھا جاتا تھا۔
پھر ایک دن وہ چلا گیا ۔ ۔ ۔ پہلے عمان، پھر امریکا۔
لوگوں نے کہا، چلا گیا؟ اچھا ہی ہوا، یہاں تو ہوا بھی قید ہے۔
امریکا میں وہ لیبارٹری کے اندر جا بیٹھا۔
ریت، لوہا، اور ہوا۔ یہ تین چیزیں اس کے جنون میں بدل گئیں۔
اس نے مادے کے اندر ایسے خانے تراشے جو سانس لے سکتے تھے،
ایسے ڈھانچے بنائے جو صحرا سے پانی کھینچ سکتے تھے۔
اس نے ریت کے اندر زندگی ڈال دی۔
دنیا حیران ہوئی۔
کہا، ’یہ سائنس ہے‘۔
عمر ہنسا، ’نہیں، یہ پیاس کی کہانی ہے۔‘
2025 میں اسے کیمسٹری کا نوبیل انعام ملا۔
لوگوں نے تالیاں بجائیں، تصویریں کھینچیں، تقریریں کیں۔
لیکن عمر کی آنکھیں کسی اور منظر میں اٹکی تھیں۔
اسے اپنے بچپن کا خالی پیالہ یاد آ رہا تھا،
جو وہ ہر روز آسمان کی طرف اٹھاتا تھا،
اور جس میں کچھ نہیں گرتا تھا۔
کسی نے اس سے پوچھا،
پروفیسر، آپ نے یہ سب کیسے کر دکھایا؟
وہ بولا،
بس وہی کیا جو ہر پیاسا انسان کرتا ہے۔
پانی تلاش کیا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ میں نے اسے ایٹموں میں ڈھونڈا۔
رات کو جب وہ لیبارٹری میں اکیلا ہوتا،
تو کسی دور کے کیمپ سے ماں کی آواز آتی:
عمر، پانی لا دیا؟
اور وہ مسکرا کر شیشے کی ٹیوب میں جھانکتا ۔ ۔
جہاں بھاپ کی ایک بوند چمک رہی ہوتی۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔