نوبیل کمیٹی کی جانب سے وینزویلا کی جمہوریت پسند رہنما ماریہ کورینا کو 2025 کا نوبیل امن انعام دینے کے اعلان کے بعد ایک طرف ان کی جمہوری جدوجہد کی ستائش ہوئی تو دوسری طرف سابقہ بیانات اور کارروائیوں کی بنیاد پر سخت تنقید بھی سامنے آئی۔
یہ بھی پڑھیں:ماریا کورینا ماچادو نے نوبیل امن انعام ٹرمپ کے نام منسوب کردیا
نوبیل کمیٹی نے ماریا کو وینزویلا میں جمہوریت کے لیے ان کی مسلسل جدوجہد اور استبداد کے خلاف کردار کے اعتراف میں امن اعزاز دیا۔
کمیٹی کے چیئرمین نے انہیں شہری بہادری کی ایک مرکزی مثال اور ایک متحد کرنے والی شخصیت قرار دیا، جنہوں نے عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ اور آواز بلند کرنے کے لیے نمایاں کردار ادا کیا۔
مخالفت اور تنقید
ماریا کورینا پر سب سے زیادہ تنقید دو بڑے نکات کی بنیاد پر سامنے آئی۔ ایک، سابقہ اسرائیل نواز بیانات اور اسرائیل کی Likud پارٹی کے ساتھ تعلقات، جن میں انہوں نے اسرائیل کی حمایت اور وینزویلا کی جدوجہد کو اسرائیل کے ساتھ جوڑا۔
نقادوں نے ان کے کچھ پوسٹس اور 2020 میں Likud پارٹی کے ساتھ تعاون کے دستاویزات پر دستخط کو بنیاد بنا کر سوال اٹھائے۔
دوسرا، 2018 میں انہوں نے بعض بیرونی رہنماؤں سے، بشمول اسرائیل اور ارجنٹینا کے، مدد مانگی تھی تاکہ وینزویلا کے موجودہ حکومت پر دباؤ ڈال کر تبدیلی لائی جا سکے۔
غزہ اور اسرائیل کے حوالے سے مؤقف
نقادوں نے ماریا کورینا کے ان بیانات کی بھی نشاندہی کی جہاں انہوں نے 2023 کے بعد اسرائیل کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔
یہ بھی پڑھیں:امن نوبیل انعام 2025: صدر ٹرمپ پر سبقت پانے والی ماریا کورینا کون ہیں؟
کچھ حلقوں نے اسے غزہ میں انسانی نقصان کے ساتھ جوڑ کر تنقید کا نشانہ بنایا، جبکہ ماریا کورینانے کبھی بھی فلسطینی شہریوں کے قتل کی حمایت ظاہر نہیں کی۔
بین الاقوامی ردعمل
امریکی مسلم حقوق کے گروپوں اور یورپی سیاستدانوں نے بھی نوبیل کمیٹی کے فیصلے پر سوال اٹھائے اور کہا کہ ایسے کسی شخص کو انعام دینا نوبیل کے مقصد کے مطابق نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسے افراد کو سراہا جانا چاہیے جو انسانی حقوق اور انصاف کے لیے مستقل مزاجی سے کام کرتے ہیں، جیسا کہ صحافی، طلبہ اور فعال شہری جنہوں نے غزہ میں ہونے والے انسانی نقصان کے خلاف آواز بلند کی۔
ماریا کورینا کا مؤقف
انعام کے اعلان کے بعد ماریاکورینا نے اپنے نوبیل امن انعام کو وینزویلا کے لوگوں کے نام کیا اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ اپنے تعلقات اور جدوجہد پر روشنی ڈالی۔

انہوں نے انعام کو ایسے رہنماوں کو بھی مختص کیا جنہوں نے ان کے مؤقف کی حمایت کی، جس پر داخلی اور خارجی سطح پر بحث جاری ہے۔