12 اکتوبر کو پاکستانی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کیا ہے ۔ اس میں افغان طالبان، فتنہ خوارج (ٹی ٹی پی ) فتنہ ہندوستان (بی ایل اے ) کی جانب سے پاکستان پر بلااشتعال حملے کو پر امن ہمسائگی اور تعاون کے خلاف قرار دیا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ پاکستان نے اپنے دفاع کا حق استعمال کرتے ہوئے حملے کو منتشر کیا اور حملہ آوروں کو بھاری نقصان بھی پہنچایا۔ اس بیان کے آخر میں یہ کہا گیا ہے کہ ’ہمیں امید ہے کہ اک دن افغان عوام آزاد ہوں گے اور ان پر ایک حقیقی نمائندہ حکومت کی حکمرانی ہو گی‘۔
افغان عوام کی آزادی اور ان کی ایک حقیقی نمائندہ حکومت۔ ترجمان نے یہ تان اٹھائی اور اس کے ساتھ ہی یاری ٹٹ گئی تڑک کر کے۔ گیت کا پہلا مصرعہ اور بھی سوادی ہے جو بے قدروں (افغان طالبان) کے ساتھ لگائی یاری کا ذکر کرتا ہے۔ پاکستان نے ڈبل گیم کرنے کے الزامات سہے کس کے لیے ایک سئیاں تیرے واسطے۔ یہ الزامات افغان طالبان کی مدد کے لیے نہیں لگائے جاتے تھے تو کس کے لیے لگتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: ڈیجیٹل اکانومی پاکستان کا معاشی سیاسی لینڈ اسکیپ بدل دے گی
سیکیورٹی فورسز کے جوان دہشتگردوں کا مقابلہ کرتے اپنے لوگوں کو بچانے کی قیمت جان دے کر ادا کر رہے ہیں۔ ہر 3 دہشتگردوں کو ٹھکانے لگاتے سیکیورٹی فورسز ایک جوان کی جان کا نذرانہ دے رہی ہیں۔
دوشنبے میں افغانستان پر ہونے والے اجلاس میں پاکستانی مندوب محمد صادق نے کہا کہ دہشتگردوں میں افغان باشندوں کی تعداد 70 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔
پاکستان نے ایران کے میزائل حملوں کا فوری جواب دیا۔ انڈیا کی غلط فہمی دور کی۔ ٹرمپ کسی سالگرہ پر بھی گیا ہو وہاں کیک کاٹتے پھونک مارتے بتاتا ہے کہ ایسے پھونک مار کے پاکستان نے انڈیا کے سات جہاز گرائے۔ انڈییا کے ساتھ معرکہ پاکستان کے ایک نئے تعارف کا باعث بنا۔ دنیا کو معلوم ہوا کہ یہ کوئی فیل ہوتی ریاست نہیں ہے۔ ہر قسم کے فوجی خطرے سے نپٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
قطر پر جب اسرائیل نے حملہ کر کے حماس کو ننشانہ بنایا۔ اس کے فوری بعد پاک سعودی دفاعی معاہدے کا اعلان ہو گیا۔ جس میں کہا گیا کہ ایک پر حملہ دونوں پر حملہ تصور ہوگا وزیر اعظم شہباز شریف کو شرم الشیخ میں جس طرح ٹرمپ نے دنیا بھر سے آئے لیڈروں کی موجودگی میں اپنی تقریر کے دوران بات کرنے کا موقع دیا۔ اس سے یہ تو پتا لگتا ہے کہ ٹرمپ کو پاکستان سے سچا پیار ہو گیا ہے۔ اس کی وجہ انڈیا کے خلاف فوجی طاقت کے مظاہرے کے علاوہ کیا ہے؟
مزید پڑھیے: افغانستان میں انٹرنیٹ کی بندش، پاکستان کے لیے موقع، افغانوں کے لیے مصیبت
اس پاکستان کے جس نے اپنی دفاعی طاقت اور پوزیشن نو دریافت کی ہے۔ فوجی درجن درجن کی تعداد میں دہشتگردی کا مقابلہ کرتے جان دیں گے۔ نتیجہ اس کے علاوہ کیا نکلنا تھا کہ افغانستان کے اندر دہشتگردوں کے ٹھکانوں اور قیادت کو نشانہ بنایا جاتا۔ اس کے جواب میں اگر افغان طالبان پورے پاک افغان باڈر پر لڑائی چھیڑ کر جواب دیں گے تو پھر وہی ہونا تھا جو ہوا۔ اپنے مورچے چھوڑ کر بھاگنا پڑا، چوکیاں قبضہ کروائیں۔
پاکستان افغانستان کے درمیان اس تناؤ کے دوران امیر خان متقی انڈیا کے دورے پر تھے۔ واپس کابل پہنچنے پر ان کا کہنا تھا کہ وقت آ گیا ہے کہ انڈیا کے ساتھ تعلقات کو مکمل بحال کیا جائے۔ یہ لائن ایک کامیاب دورے کا پتا ہی بتاتی ہے۔ حال یہ ہے کہ ہمارے بھارت مہان نے پاک افغان تناؤ پر ایک لفظ نہیں کہا اور پاکستان کو مشتعل کرنے سے گریز کیا ہے اور افغان طالبان کی حمایت میں بھی کچھ نہیں بولا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ افغان طالبان نے افغانستان کے اندر ایک طرح سے دنیا بھر کے عسکریت پسندوں کے لیے اقوام متحدہ ہی بنا رکھی ہے۔ سنٹرل ایشیا، روس، چین، یورپ، پاکستان ہر ملک کو یہاں موجود دہشتگرد گروپوں سے حقیقی خطرات لاحق ہیں۔
ان گروپوں کے خلاف کارروائی سے افغان طالبان انکاری ہیں اور افغانستان پر ہونے والے اجلاسوں میں ہر بار افغان طالبان حکومت سے ان کے خلاف کاروائی کا مطالبہ ہوتا ہے۔
پاک افغان تناؤ کے دوران کسی ملک کا افغان طالبان کے حق میں کوئی بیان نہیں آیا۔ کئی اہم ملکوں نے اس پر بات کرنے سے ہی گریز کیا۔ جن ملکوں نے تحمل کا مظاہرہ کرنے کو کہا انہوں نے بھی اک طرح سے حوصلہ افزائی ہی کی جیسے چاہتے ہوں کہ افغان طالبان کی طبعیت سیٹ ہو اور ان کو ایک ریئلیٹی چیک دیا جائے۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے اس بیان کہ ’ہمیں امید ہے کہ اک دن افغان عوام آزاد ہوں گے اور ان پر ایک حقیقی نمائندہ حکومت کی حکمرانی ہو گی‘ کو اک بار غور سے پڑھ لیں۔ حالات جس طرف جا سکتے ان کی سمجھ آ جائے گی۔ پاکستان نے عارضی فائر بندی مشروط طور پر ہی کر رکھی ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان کی بڑی آبادی کو چھوٹی سوچ کے ساتھ ترقی نہیں دی جا سکتی
اگر دوبارہ کوئی دہشتگرد حملہ ہوا تو اک بار پھر افغانستان کے اندر مسلح گروپوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ امریکا سمیت بہت سے ملک اس صورتحال پر خوش ہونگے کہ افغان طالبان کے ساتھ اسکور سیٹل کرنے کا ایک نادر موقع سب کے ہاتھ آیا ہے۔ خواتین کی تعلیم پر پابندی اور لوگوں کو ریلیف کی فراہمی میں ناکامی نے افغان طالبان کے خلاف پہلے ہی افغانوں کو مشتعل کر رکھا ہے۔
مسائل کے حل کی ایک اور چابی بھی پاکستان کے پاس ہے اس کی طرف حوالدار بشیر کا ابھی دھیان نہیں گیا شاید۔ افغان طالبان کے پاکستان مخالف راہنماؤں کی جائدادیں کاروبار اور اکاؤنٹ پاکستان میں موجود ہیں۔ ان پر تالا لگے تو ان کو اعتدال نرمی دوستی کے بھولے سبق یاد آ جائیں گے۔ ورنہ سفارتی تنہائی دکھ بھری تو ہو ہی جائے گی۔ اور ایسا کرنا بنتا بھی ہے کہ چند لوگوں نے دونوں ملکوں کے عوام کو اپنی پالیسیوں کا یرغمال بنا رکھا ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔













