’عمران خان ہی ریاست ہیں‘

بدھ 15 اکتوبر 2025
author image

آصف محمود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بانکے میاں تو عشقِ عمران میں مارے جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ خیبر پختونخوا کے عوام کس جرم میں مارے جائیں گے؟

عمران خان کی نگاہ مردم شناس نے جب عثمان بزدار صاحب کا انتخاب کیا تو ہم جیسے مداحوں کو خیال گزرا کہ یہ ان کی مردم شناسی کی انتہا ہے اور اس سے آگے اب مزید کوئی مقام آہ و فغاں  نہیں ہو سکتا، لیکن خان صاحب نے حیرتوں کو بازار کر دیا اور علی امین گنڈا پور کو لے کر آ گئے۔

گنڈا پور صاحب کی علمی، ادبی اور سیاسی بصیرت کا سونامی دیکھ کر جب یہ خیال آنے لگا کہ بس اس سے آگے تو اب کوئی مقام گریہ و زاری ہو ہی  نہیں سکتا تو خان صاحب نے ایک بار پھر سب کو ششدر کر دیا اور بانکے میاں کو لے کر آ گئے۔

یہ بھی پڑھیں: بیت اللہ سے

 بانکے میاں نے آتے ہی صوبے میں گڈ گورننس کا کوئی منصوبہ سامنے رکھنے کی بجائے عشق عمران میں مارے جانے کی قوالی شروع کر تے ہوئے  بتا دیا کہ کار مغاں کو تمام مت سمجھیے، انگور کی رگوں میں ابھی ایسی کئی شرابیں باقی ہیں جنہیں کسی نے چکھا تک نہیں۔

ایوان میں اہلِ فن تو بہت آئے لیکن بانکے میاں کا بانکپن سب سے جدا تھا۔ شوخی گفتار نے ادب سے سیاست تک جس موضوع کو چھوا، سرگم کر دیا۔ میرے جیسا آدمی فیصلہ نہیں کر پا رہا کہ پہلے  بانکے میاں کے ادبی ذوق پر داد و تحسین بلند کرے یا ان کے سیاسی شعور پر۔

ایک زمانہ تھا، پارلیمان میں لوگ شعروادب کا سہارا لیتے تو سماں باندھ دیتے۔ نوابزادہ نصر اللہ خان، پروفیسر خورشید احمد، پروفیسر غفور، مولانا شاہ احمد نورانی، کس کس کا نام لیا جائے۔ رومی سے اقبال اور غالب سے میر تک، موتیوں کی ایک مالا تھی۔

 بھٹو کو سزائے موت سنائے ہوئی، اپیل کے مرحلے میں،  سپریم کورٹ کو مخاطب کرتے ہوئے غالب کا شعر پڑھا، مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں۔ پھر کہنے: مائی لارڈ غالب غلط کہتا تھا، مشکلیں کبھی آساں نہیں ہوتیں، انہیں جھیلنا پڑتا ہے۔ ابھی ماضی قریب میں مشاہد اللہ خاں کی مثال ہمارے سامنے ہے، شعر پڑھتے تھے اور کتنے ہی سخن ہائے ناگفتہ کو گویائی مل جاتی تھی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اب ایک ہمارے یہ مبینہ وزیر اعلی صاحب ہیں، قابل رحم حد تک غیر معیاری  نثری مضمون کو شعر بنا کر داد طلب ہوتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیےاور سر دھنیے۔ فرماتے ہیں :

’وہ جن کی اپنی  لنگوٹیاں تک پھٹی ہوئی ہیں

وہ ہماری پگڑی اچھالنے میں لگے ہوئے ہیں‘

آدمی شعر سنتا ہےا ور حیران ہوتا ہے یہ یہ کسی سبزی منڈی کا احوال ہے یا پارلیمان کا۔

مزید پڑھیے: ٹرمپ امن فارمولا : کون کہاں کھڑا ہے؟

 ضروری نہیں کہ ہر صاحب سیاست کا ادبی ذوق اچھا ہو  تاہم ایک سیاست دان سے یہ توقع ضرور رکھنی چاہیے کہ کم از کم  اس کا عصری سیاسی فہم پست نہ ہو۔ خرابی یہ ہے کہ اس میں بھی قافلہ انقلاب کا ہاتھ تنگ نظر آتا ہے۔

قافلہ انقلاب کا کُل سیاسی شعور اس ایک فقرے میں سمٹ آیا ہے کہ ’ عمران خان ہی ریاست ہے‘۔ یہ فقرہ بتا رہا ہے تحریک انصاف کی نفسیاتی گرہ کتنی شدید اور خوفناک ہے۔ یہ سوچ کسی سیاسی جماعت کی نہیں ہے، یہ پاپولر فاشزم ہے۔ اسی  کی بد ترین شکل کو کَلٹ کہتے ہیں۔ یہ عارضہ تحریک انصاف کے وجود کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ یہ اب ایک سیاسی ٓجماعت نہیں رہی، یہ ایک کَلٹ کا روپ دھار چکی۔ یہاں کوئی اجتماعی بصیرت بروئے کار نہیں آتی۔ اس حیرت کدے میں صرف کَلٹ اور اس کے عشاق رہتے ہیں۔

حکومت پارلیمان کے منتخب نمائندوں کی اکثریت کا نام ہوتا ہے لیکن اسے بھی ریاست نہیں کہا جا سکتا۔ یہاں ایک فرد واحد کو ریاست قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ کوئی معمولی واردات نہیں، اس کے ساتھ پورا فکری پیکج ہے۔

ریاست کا مخالف غدار ہوتا ہے، اب جب عمران خان ہی ریاست ہے تو اس کی مخالفت تو غداری ٹھہری۔ یعنی جو عمران کا وفادار نہیں، و ہ غدار ہے۔

اس کے خلاف الیکشن لڑنا یا اس سے کسی بھی درجے میں اختلاف کرنا بھی ایک سنگین جرم ہوا کیونکہ بھائی جان تو ریاست ہیں، بلکہ بھائی جان ہی ریاست ہیں۔ اب اندھوں، گونگوں اور بہروں کی طرح صاحب کی اطاعت ہی ایک اچھے اور محب وطن شہری ہونے کی سند قرار پائے گی۔

اسٹیبلشمنٹ اگر عمران کے ساتھ نہیں تو گویا وہ ریاست کے ساتھ وفادار نہیں۔ عدلیہ اگر اسے دیکھ کر وارفتگی کے عالم میں ’گڈ ٹو سی یو‘ نہیں کہتی تو اس کی ریاست دوستی بھی سوالیہ نشان ٹھہری۔ انتظامیہ کی وفاداری اگر کپتان صاحب کے ساتھ نہں تو گویا وہ بھی ریاست کی وفادار نہیں۔ صحافت کا اگر کپتان خان کو دیکھ کر ابرار الحق صاحب کی طرح نچنے کو دل نہیں کرتا تو وہ بھی غیر محب وطن ہو گئی۔

اب اگر عمران خان ہی ریاست ہیں تو وفاق کی کیا مجال کہ وہ افغانستان کے بارے میں کوئی پالیسی وضع کرے اور امور خارجہ کا تعین کرتی پھرے۔ یہ فیصلہ تو صرف ریاست یعنی عمران خان کریں گے کہ افغانستان کے بارے میں کون سی پالیسی درست ہےا ور کون سی غلط۔۔ یعنی وفاق اور وزارت خارجہ جیسے وفاق کے ادارے تو اب غیر اہم ہو گئے، اب کے پی حکومت امور خارجہ بھی خود طے کرے گی۔ کیونکہ ریاست کا مفاد سب سے مقدم ہے اور برہان تازہ یہ ہے کہ عمران خان ہی ریاست ہے۔

مزید پڑھیں: مریم نواز یا علی امین گنڈا پور

اب معیار ایک ہی انسان ہے ، وہی ریاست ہے۔ اس کے سامنے جس جس نے اپنی عقل اور شعور کو سرنڈر کر دیا وہ نقیب صبح صداقت ہے ، باقی سب چور ، بے ایمان اور کرپٹ ہیں۔ یعنی خان نہیں تو کچھ بھی نہیں۔

گاہے محسوس ہوتا ہے کہ جس اصول کا اظہار بانکے میاں نے کیا ہے، تحریک انصاف اسی اصول کی عملی شکل ہے۔ ان کے ہاں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ خان جو کرتا ہے صحیح ہوتا ہے۔ کسی چیز کے درست ہونے کی  کے لیے اور کوئی دلیل ان کے ہاں قابل قبول نہیں۔ خان ہی دلیل ہےا ور خان ہی معیار ہے۔ جو اس کے ساتھ آ جائے وہ  معلوم انسانی تاریخ کا آخری ولی ہے جو دوسری صف میں ہے وہ خائن اور بد کردار ہے۔

کَلٹ کے عشاق تو عشقِ عمران میں مارے جائیں گے،  سوال وہی ہے کہ صوبے کے عوام کس جرم کی سزا پا رہے ہیں؟

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آصف محمود انگریزی ادب اور قانون کے طالب علم ہیں۔ پیشے سے وکیل ہیں اور قانون پڑھاتے بھی ہیں۔ انٹر نیشنل لا، بین الاقوامی امور، سیاست اور سماج پر ان کی متعدد کتب شائع ہوچکی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا آئل ٹینکر آج لنگر انداز، امریکی تیل درآمد کا آغاز

آزاد جموں و کشمیر کے وزیر اعظم چوہدری انور الحق نے استعفیٰ دینے کے لئے شرائط رکھ دیں

کیا نصیبو لعل 56 برس کی عمر میں بیٹے کی ماں بن گئیں؟

سعودی عرب میں ‘جینیاتی و خلیاتی علاج ساز فیکٹری’ کا افتتاح، طبی تحقیق میں سنگِ میل

پی آئی اے کی ریاض ایئر کے ساتھ کارگو ڈیل، قومی ایئرلائن کو کیا فائدہ ہوگا؟

ویڈیو

بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کے بڑھتے مسائل، پاکستان کو کتنے ارب ڈالر کا نقصان ہورہا ہے؟

گول گپے، جو فاسٹ فوڈ کے دور میں بھی مقبول ہیں

بالائی دیر کے چاپانی پھل کی خاص بات کیا ہے؟

کالم / تجزیہ

اگر  خوبرو ’دیئیلا‘ پاکستان میں آ جائے تو؟

کیا افغانستان دوست ہے؟

پاک افغان مذاکرات کی ناکامی، افغان طالبان کو فیل کرے گی