قانونی ماہرین کے مطابق نیب قانون میں نئی ترامیم سے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو سب سے زیادہ فائدہ مل سکتا ہے لیکن پھر بھی سپریم کورٹ کے سامنے وہ اصرار کر رہے ہیں کہ پرانا قانون بحال کیا جائے۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے سپریم کورٹ میں پارلیمنٹ کے ترمیم شدہ نیب قانون کو چیلنج کر رکھا ہے، نئے قانون میں جرم کی تعریف اور اس کو ثابت کرنے کے معیارات تبدیل ہو چکے ہیں تاہم قانونی ماہرین کہتے ہیں اس بنا پرعمران خان نیب کے نئے قانون سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے شخص بن سکتے ہیں۔
گزشتہ روز سپریم کورٹ میں نیب ترمیمی قانون کے بارے میں بات کرتے ہوئے وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے سوال اٹھایا تھا کہ ایک شخص بطور وزیراعظم ایک قانون میں ترمیم کرتا ہے، پھر جب کرسی سے ہٹتا ہے تو کہتا ہے کہ مجھے یہ قانون نہیں بنانا چاہیئے تھا پھر اسی قانون کا فائدہ بھی اٹھاتا ہے؟
وی نیوز کے ساتھ بات کرتے ہوئے نیب کے سابق پراسیکیوٹرعمران شفیق ایڈووکیٹ نے کہا کہ نیب ترمیمی قانون سے عمران خان کو قدم قدم پر فائدہ ہو گا۔ نئی ترامیم کے ذریعے عمران خان کو انکوائری، انوسٹی گیشن اور آگے چل کر القادر ٹرسٹ کیس کے ٹرائل تک تینوں مراحل میں فائدہ مل سکتا ہے۔
عمران شفیق نے کہا کہ نئے ترمیم شدہ قانون میں گرفتاری اور ریمانڈ کے قوانین بدل چکے ہیں اور سب سے بڑھ کر جرم کو ثاپت کرنے کے پیمانے بدل چکے ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر نئے نیب قوانین میں جرم کی تعریف ہی بدل چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر اگر نیب نے عمران خان پر اختیارات کے غلط استعمال کا الزام ثابت کرنا ہے تو نیب کو اس جرم سے متعلق کرپشن بھی ثابت کرنا پڑے گی۔ نیب کو یہ بھی ثابت کرنا پڑے گا کہ اگر عمران خان صاحب نے مبینہ طور پر اختیارات کا ناجائز استعمال کیا ہے تو اس سے ان کی اپنی ذات کو کیا فائدہ پہنچا ہے۔
عمران شفیق ایڈووکیٹ نے مزید کہا کہ القادر ٹرسٹ کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک کاروباری شخصیت کو مبینہ طور پر ساٹھ ارب روپے کا فائدہ پہنچایا ہے اور بدلے میں یونیورسٹی ٹرسٹ کے نام پر زمین حاصل کی۔
انکا مزید کہنا تھا کہ اب زمین تو ٹرسٹ کے نام پر ہے جس سے عمران خان کو ذاتی طور پر کوئی فائدہ نہیں ملا۔ ٹرسٹ تو مفاد عامہ کے لئے بنایا جاتا ہے اور عمران خان صاحب تو محض اس کے ٹرسٹی ہیں۔ اس طرح نئے نیب قانون کی رو سے نیب کو جو ثبوت دینا ہے کہ اس مبینہ ڈیل سے عمران خان صاحب کو ذاتی فائدہ پہنچا وہ میسر ریکارڈ سے ثابت کرنا مشکل ہو گا۔
انکے مطابق اگریہ پرانا قانون ہوتا تو عمران خان صاحب کے اوپر یہ الزامات مکمل طور پر ثابت تھے اور عمران خان صاحب کو اس میں سزا ہو سکتی تھی لیکن نئے قانون میں اب نیب کو عمران خان کو ذاتی طور پر ملنے والے فائدے کے ثبوت دینا ہوں گے جو بظاہر مشکل نظر آتا ہے۔
عمران شفیق ایڈووکیٹ کے مطابق پرانا قانون ہوتا تو القادر ٹرسٹ ایک اوپن اینڈ شٹ کیس تھا۔ اس میں برطانیہ سے پیسہ آنا، بند لفافے میں دستاویزات کی کابینہ سے منظوری لینا اور کاروباری شخصیت کو اربوں روپے کا فائدہ اور اس سے زمین کا حصول ثابت ہے۔
’نئی ترامیم کی وجہ سے یہ ثبوت کمزور ہوئے ہیں، نیب کو الگ سے ثابت کرنا پڑے گا کہ اس میں عمران خان صاحب کو ذاتی طور پر کیا فائدہ پہنچا ہے۔‘
گزشتہ روز سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس عمرعطاء بندیال نے عمران خان کے وکیل خواجہ حارث سے سوال کیا کہ آپ بتائیں عمران خان نے ٹرائل کورٹ میں نئے ترمیمی قانون پر انحصار کیوں کیا؟
چیف جسٹس نے خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ بھی تو دیکھیں کہ بہت ساری ترامیم تو آپ کے دور میں ہوئی ہیں۔ آپ بتائیں کہ ہم سے غلطی ہو گئی اور اس کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔
ایڈووکیٹ عمران شفیق نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ نئے قانون کے مطابق نیب مقدمات میں ضمانت کا حصول کافی آسان ہو گیا ہے اور نیب چیئرمین کی جانب سے گرفتاری کے وارنٹ جاری ہونے کی چار شرائط ہیں۔
’ملزم نیب کے متعدد کال اپ نوٹسز کے جواب میں غیر حاضر رہے لیکن عمران خان نے چونکہ کال اپ نوٹسز کا جواب جمع کرا دیا ہے، اس لئے ان پر یہ شرط لاگو نہیں ہو سکتی۔‘
’گرفتاری وارنٹ تب جاری کیا جا سکتا ہے جب ملزم کے فرار کا خطرہ ہو۔‘
’تیسرا یہ کہ ملزم ریکارڈ میں ردوبدل (ٹیمپر) کرسکتا ہو۔‘
’چوتھا یہ کہ ملزم وہی جرم دوسری بار دہرا سکتا ہو۔‘
انہون نے کہا کہ یہ چاروں شرائط عمران خان کے کیس سے مطابقت نہیں رکھتی ہیں اس لیے اب اس مقدمے میں ان کی گرفتاری کے وارنٹس جاری ہونے کا خدشہ بہت کم رہ گیا ہے۔
عمران شفیق نے بتایا کہ القادر ٹرسٹ کیس میں نیب نے جب انکوائری رپورٹ کو انوسٹی گیشن میں بدلا تو نئے قانون کے مطابق گرفتاری سے پہلے یہ رپورٹ انہیں عمران خان کو دینی تھی جو کہ نہیں دی گئی اس لیے ان کی گرفتاری درست نہیں تھی۔
عمران شفیق نے کہا چونکہ عمران خان نے کال اپ نوٹس کا جواب دے دیا ہے اس لیے نئے قانون کے مطابق اب ان کی عبوری ضمانت کنفرم ہونے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔
سابق نیب پراسیکیوٹر نیب کا کہنا تھا کہ القادر ٹرسٹ مقدمے میں عمران خان کے خلاف انکوائری رپورٹ آ چکی ہے اس لئے امکان یہ ہے کہ ان کے وکلاء اس رپورٹ کو ہائی کورٹ میں چیلنج کر کے وہیں سے ختم کرانے کی کوشش کریں گے۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد بیرسٹر جہانگیر جدون نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نیب ترامیم سے فائدہ اٹھانے والے سب سے پہلے شخص ہیں۔ سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ اب گزشتہ قانون میں نوے روزہ ریمانڈ کے برعکس، زیادہ سے زیادہ چودہ دن کا ریمانڈ دیا جا سکتا ہے۔
’اب ضمانت کے حصول کے لیے آپ کو ہائی کورٹ آنے کی ضرورت نہیں پڑتی اور ٹرائل عدالت ہی سے ضمانت مل جاتی ہے۔‘
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل راجہ عامر عباس نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان صاحب اپنے اوپر کرپشن کے مقدمے کا دفاع نئے قانون کے تحت کریں گے کیونکہ وہی اس وقت نافذالعمل ہے۔
انکے مطابق پرانے قانون میں ضمانت کے لیے ہائی کورٹ میں رٹ کرنا پڑتی تھی جبکہ نئے قانون کے تحت اب ٹرائل عدالت ہی درخواست ضمانت کو منظور یا مسترد کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔
’ایک جانب عمران خان صاحب نیب قوانین میں ترامیم سے استفادہ حاصل کر رہے ہیں اور دوسری جانب انہوں نے اسی قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کر رکھا ہے۔‘
گزشتہ روز سپریم کورٹ نے عمران خان اور وفاقی حکومت کے وکلاء سے کہا کہ ہمیں بین الاقوامی قوانین کے تناظر میں اس بات پر اعانت درکار ہے کہ عدالتیں کس طرح قانون کو ختم کر سکتی ہیں۔
واضح رہے سپریم کورٹ نے نیب ترمیمی قانون کی سماعت دو مہینے کے لیے ملتوی کر دی ہے اور دونوں فریقین کو تحریری بیانات جمع کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔