بنگلہ دیش کی ایک خاص ٹریبونل عدالت نے سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ واجد کے خلاف جرائمِ بشریت کے الزامات پر موت کی سزا کا مطالبہ کیا ہے، جن کا تعلق جولائی-اگست 2024 میں ہونے والے طلبہ احتجاجی مظاہروں کے دوران ہونے والی ہلاکتوں سے ہے۔
الزامات اور الزامات کی نوعیت
پروسیکیوشن کے مطابق مظاہروں کے دوران سیکڑوں طلبہ، پولیس اہلکار اور سیاسی کارکنان ہلاک ہوئے، اور شیخ حسینہ نے مظاہرین کی کریک ڈاؤن کے احکامات دیے، یا کم از کم ان واقعات کی روک تھام میں ناکام رہیں۔
یہ بھی پڑھیں:سابق بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی رہائشگاہ کو میوزیم میں تبدیل کردیا گیا
یونائیٹڈ نیشنز کے مطابق یہ ہلاکتیں ممکنہ طور پر جرائمِ بشریت کی حیثیت رکھتی ہیں۔
شیخ حسینہ کی موجودہ حالت اور مقدمے کا پسِ منظر
یاد رہے کہ شیخ حسینہ واجد ملک سے باہر ہیں اور عدالتِ سے غیر حاضری میں مقدمے کا سامنا کر رہی ہیں۔ ان پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے عوامی احتجاج کے دوران طاقت کا غیر متناسب استعمال کیا۔
پروسیکیوشن کا مؤقف ہے کہ وہ ایک ایسے مرکزی کردار کے طور پر ذمہ دار ہیں جس کے گرد تمام جرائم جولائی-اگست کی بغاوت کے دوران گھومتے تھے۔
سیاسی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی تشویش
متعدد انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سیاسی حلقے عدالت کے فیصلے اور مقدمے کی شفافیت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔
ان کا موقف ہے کہ شیخ حسینہ کے خلاف عائد الزامات کی اِنتہائی سنگینی کے پیش نظر مناسب قانونی شواہد اور انصافِ مؤثر ضروری ہیں۔