دورِ طالب علمی میں شاعری پڑھتے ہوئے ہم اس مخمصے کا شکار رہتے کہ شاعر کب خدا کو مخاطب کر رہا ہے کب محبوب کو؟ بعد میں شاعری کا فہم بڑھنے کے ساتھ اس امتیاز کی تو قابلیت پیدا ہوگئی، لیکن یہ بھی جان گئے کہ کوئی شعر ہو یا فقرہ حسب ضرورت و کیفیت کہیں بھی چسپاں کیا جاسکتا ہے، جیسے سُنتے آئے ہیں کہ ’جو ہوتا ہے اچھے کے لیے ہوتا ہے‘، یہ جملہ خدا یا تقدیر کے لیے بولا جاتا ہے، مگر پیار، محبت، عشق، شفقت، ممتا وغیرہ جیسے جذبات واحساسات کسی محبوب نظر، دل بر، جانِ پدر، نورِ چشم، نورِ نظر کے لیے بھی اس خوش عقیدگی اور خوش گمانی میں مبتلا رکھ سکتے ہیں کہ اس نے جو کیا وہ اچھے کے لیے کیا ہوگا۔
اس عالمِ جذبات میں آنکھ کے تارے، پیارے اور لاڈلے نے کچھ بھی کیا ہو دل و دماغ یہ طے کر لیتے ہیں کہ اس کا مقصد نیک تھا اور وہ جو بھی قیامت ڈھا کر سامنے آئے اسے ’دیکھ کر خوشی ہوتی ہے‘، دل باغ باغ ہو جاتا ہے، آنکھوں کا نور بڑھ جاتا ہے ’آئے پیا مورے دوار‘،’دیکھو یہ کون آگیا، میرا صنم آگیا‘،’بہاروں پھول برساﺅ میرا محبوب آیا ہے‘،’تم آگئے ہو نور آگیا ہے، نہیں تو چراغوں سے لو جارہی تھی‘،’جانے کتنے دنوں کے بعد گلی میں آج چاند نکلا‘ جیسے بول اسی استقبالیہ کیفیت کی ’عطا‘ ہیں۔ حضرت امیرخسرو کا یہ کلام بھی محبوب کو سامنے دیکھ کر نہال ہو جانے اور جذب و مستی میں ڈوب جانے کے انہیں لمحات کا ترجمان ہے:
مورے پیا گھر آئے
اے ری سکھی مورے پیا گھر آئے
بھاگ لگے اس آنگن کو
بل بل جاؤں میں اپنے پیا کے
چرن لگایو نردھن کو
میں تو کھڑی تھی آس لگائے
مہندی کجرا مانگ سجائے
دیکھ صورتیا اپنے پیا کی
ہار گئی میں تن من کو
جس کا پیا سنگ بیتے ساون
اس دلہن حق رین سہاگن
جس ساون میں پیا گھر ناہیں
آگ لگے اس ساون کو
اپنے پیا کو میں کس ودھ پاؤں
لاج حق ماری میں تو ڈوبی ڈوبی جاؤں
تم ہی جتن کرو اے ری سکھی ری
میں من بھاؤں ساجن کو
یہ پیا کو سامنے پاتے ہی ملنے والی وہ مسرت ہے کہ پیا سے پریت لگانے والی یہ پوچھنے پر بھی ’قادر‘ نہیں رہتی کہ شکایت کرے پیا رے پیا تو نے یہ کیا کیا، تجھ پر تو سب کو اتنا ’ٹرسٹ‘ تھا۔ بات وہی ہے کہ پیا جو کرتا ہے اچھے کے لیے کرتا ہے۔ محبوب کا تو کُتا بھی پیارا ہوتا ہے، تو ظاہر ہے پیا کے شیر چیتے وغیرہ اور بھی پیارے ہوتے ہیں، سو ان کے بارے میں بھی یہی حُسن ظن رکھا جاتا ہے کہ انہوں نے بھی جو کیا ہوگا اچھے کے لیے کیا ہوگا۔
پیا کے یہ پیارے اگر راج دہانی پر ہلہ بول کر ہرے بھرے پیڑوں کو آگ لگا دیں تو یہ عمل ’آنسو گیس سے بچنے کے لیے‘ سر سبز درختوں کو جلانے کا خود حفاظتی حق قرار پاتا ہے۔ پیا کو اگر ممتا بھری محبت سے روکا گیا ہو کہ ’مُنے! اس لکیر سے آگئے مت جانا، وہاں بَھؤ ہے‘۔ اور پیا لکیر کا فقیر ہونے کو باعث عار سمجھتے ہوئے وہ لکیر پار کرجائے، تو یہی سمجھا جاتا ہے کہ ’اس تک پیغام نہیں پہنچا ہوگا‘۔
اسے فلسفۂ خوش گمانی کہیں، منطقِ عشق یا کوئی اور نام دیں، اس کی رو سے محبوب بلکہ محبوب کے محبان کا بھی ہر اقدام اخلاقی اور قانونی جواز پالیتا ہے۔ ایسا ہونا سمجھ میں آتا ہے اور ایسا کرنا ہی انصاف کا تقاضا ہے، دیکھیے سیدھی سی منطق ہے، قانون بھی اندھا ہوتا ہے اور محبت بھی، اور ایک جگہ جب جمع ہوں دونوں تو اندھے پَن کا کیا حال ہوگا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں، ایسے ہی اندھے پن میں تو اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھتی ہے۔
یہاں اچانک ہمیں بچپن میں پڑھی ہوئی اندھے اور لنگڑے کی کہانی یاد آگئی، جس میں لنگڑا اندھے کے کندھوں پر سوار اسے راستہ بتاتا ہے کہ کس طرف جانا ہے، یوں دونوں ایک دوسرے کے سہولت کار بنے ہوتے ہیں۔ بہرحال اس کہانی کا ہماری تحریر سے کوئی تعلق نہیں، نہ جانے یہ ہمیں کیوں یاد آگئی، اسے لاشعور کا کھیل سمجھ کر در گزر فرمائیں۔ اس خوش اندیشی کے باعث محبوب کے شیروں اور چیتوں کے اعمال و افعال، خواہ کسی کی نظر میں کتنے ہی قبیح اور سیاہ ہوں، مُحب کا دل، دماغ، زبان اور قلم ان کی تشریح و تفسیر نیک نیتی، خیر خواہی اور بھول چوک کے عنوانات کے تحت ہی کرے گا۔
مثال کے طور پر اس عاشقانہ تشریح میں کسی ’ادارے‘ کے علاقائی سالار کی رہائش گاہ پر ’ہجوم کی بے تکلفانہ آمد‘ کا نادر واقعہ لوٹ مار، جلانے اور توڑ پھوڑ کی کارروائی سمجھنا غلط ہے، اس کے لیے ’یہی تو ہے وہ اپناپن‘ کہنا چاہیے، اسے یلغار اور حملے جیسے ناموں سے یاد کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ شاید آنے والے صرف یہ جتانے آئے ہوں کہ وہ بلاتخصیصِ عہدہ و مرتبہ اور ادارہ و جماعت ہر ہم وطن کو اپنا اور اس کے گھر کو ’خالہ جی کا گھر‘ سمجھتے ہیں۔ ممکن ہے دور سے آنے والے ’مہمان‘ بھوک سے نڈھال ہوچکے ہوں اور آگ جلاکر باربی کیو کرنا چاہتے ہوں کہ آگ بھی ان کی محبت کی آگ بن کر بھڑک اٹھی، یوں گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔ آگ بجھانے کی خاطر انہوں نے تگ و دو کی جس سے توڑپھوڑ کا تاثر ملا، اب اگر وہ جلتی عمارت میں جلنے سے بچانے کے لیے وردی، سامان، اشیائے خور و نوش اور سالم مور ساتھ لے گئے، تو نیت لوٹنے کی نہیں اس سب کو آتش زدگی سے بچانے کی تھی۔
جہاں تک ریڈیو اسٹیشن کی عمارت کے جل کر کھنڈر بن جانے کا تعلق ہے، فدویانہ تشریح کہتی ہے، اس عمارت کو تاراج کرنے والے خلوص دل سے سمجھتے ہوں گے کہ جب ملک میں تفریح اور اطلاعات کی فراہمی کے لیے درجنوں ایف ایم ریڈیو، بیسیوں ٹی وی چینل، اخبارات، انٹرنیٹ، اینڈرائڈ فون موجود ہیں اور تقریباً ہر پاکستانی کو اپنی سہولیات فراہم کر رہے ہیں تو ایسے میں سرکاری ریڈیو اسٹیشن خزانے پر بوجھ ہے۔ رہا ریڈیو اسٹیشن میں تاریخی ریکارڈ کے جل کر ملیامیٹ ہو جانے کا معاملہ، ان کی رائے میں وہ خود نئی تاریخ بنا رہے ہیں تو پرانی تاریخ سنبھال کر کیا رکھنا، اتنی ڈھیر ساری تاریخ کا قوم کیا کرے گی، لہٰذا ہجوم نے قومی دولت کے ضیاع اور تاریخ کی غیر ضروری بھرمار کا از خود نوٹس لیتے ہوئے عوام کو اس ذہنی اور مالی بوجھ سے نجات دلا دی۔
وہ طیارہ جس کے بے مثال سوار نے اس کے ذریعے دوران جنگ دشمن کے چھے جنگی طیاروں کو ایک منٹ میں دھول چٹا دی تھی، توڑ پھوڑ کا شکار ہوا تو اس کی ’عادلانہ توجیح‘ یہ کی جاسکتی ہے کے محبوب کے جنگ جُو امن کی آشا لیے اس طیارے پر چڑھ دوڑے۔ نیت محض یہ ہوگی کہ جنگ کی اس نشانی کو مٹا کر پیغام دیا جائے کہ ہم امن کے داعی ہیں۔ شہداء کی یاد میں بنائے گئے مجسموں کو توڑ ڈالنے کی کوشش بھی اسی نیت کا نتیجہ لگتی ہے۔ ممکن ہے شکست وریخت کا من مانا فریضہ انجام دینے والوں کے نزدیک قومی شہداء کی تصویر تو ہمارے دلوں میں ہے ’جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی‘ پھر ان کے مجسمے بنا کر قومی دولت صرف کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
عوامی سہولت کے لیے چلائی جانے والی سرخ بس کے شیشے چکناچور کرکے اور اس کے پہیوں کی ہوا نکال کر درحقیقت عوام کی نقل و حمل کی سہولت کے سرکاری منصوبے کے تحت چلنے والی ان بسوں کا معیار معلوم کیا گیا اور یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ ’بدعنوان صوبائی حکومت‘ نے ملک کے سب سے بڑے شہر کے باسیوں کو ناقص مٹیریل کی بسیں تو نہیں فراہم کر دیں؟ اس عمل میں شہریوں کی حفاظت کا خیال بھی پنہاں ہوسکتا ہے۔ بس کو ڈھانچے میں بدل دینے والے چاہتے ہوں گے کہ شہریوں کو گھر پر رہنے پر مجبور کر دیا جائے کیوں کہ شہر کے حالات خراب ہیں کہیں وہ باہر نکل کر خود کو نقصان نہ پہنچا لیں۔ شہریوں کی موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کو جلا ڈالنے کے پیچھے بھی یقیناً یہی ارادہ تھا۔
ایمبولینس کو نذرِ آتش کرنا بادی النظر میں وحشیانہ عمل لگتا ہے مگر بہ نظر غائر یا بہ چشم ہائر (Hire) دیکھا جائے تو کُھلتا ہے کہ یہ طارق بن زیاد کی طرح سمندر پار دشمن کی سر زمین پر اتر کر کشتیاں جلادینے کے مماثل تھا۔ ’جہاد‘ کے لیے نکلنے والے خواہاں تھے کہ وہ میدانِ جنگ میں زخمی ہوں تو انہیں بچنے اور واپسی کے لیے کسی ایمبولینس کا آسرا نہ ہو۔ طارق بن زیاد اور ان مجاہدین میں فرق بس اتنا ہے کہ وہ قادر مطلق کے لیے جنگ آزما ہوا تھا اور یہ ’القادر‘ کی خاطر، دونوں کو اپنے اپنے مقاصد پر پورا ’ٹرسٹ‘ تھا۔
آپ بھی حالیہ واقعات اور معاملات کو عاشق کی نظر سے دیکھیں تو ساری کوفت جاتی رہے گی، اشتعال ہوا ہو جائے گا، طبیعت کا مکدر پَن دور ہوجائے گا، شر نِرا خیر دکھائی دے گا اور آگ کے شعلے گلشن نظر آئیں گے۔ ہونٹ مسکرا اٹھیں گے اور دل خاصی ترمیم کے ساتھ مولانا حسرت موہانی کا یہ شعر چھوٹی سی نظم میں ڈھال کر پڑھنا شروع کردے گا:
تم ملک و ملت کو جو چاہے سزا دے لو
تم اور بھی کُھل کھیلو
پر ہم سے قسم لے لو
ہم تم سے جو لیں واپس، چھوٹی سی رعایت بھی
منسوخ جو ہم کر دیں تھوڑی سی ضمانت بھی
جو کی ہو شکایت بھی